انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وعظ سے ہمتِ عمل ہو جانے کا راز : تہذیب: وعظ کے ذریعہ سے عمل کرنے کی ہمت ہو جانے کا سبب ایک تو حیائے طبعی ہے، دوسرا سبب یہ بھی ہے کہ وعظ کے ذریعہ سے جب آپ نے اہلِ اسلام کی خدمت کی جس میں اہل اللہ بھی ہوتے ہیں تو یہ اہل اللہ اس سے خوش ہوکر دعا دیتے ہیں، اس کی برکت سے حق تعالیٰ اس کی بھی اِصلاح کر دیتے ہیں کیوں کہ ہر جلسۂ وعظ میں کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جو عند اللہ مقبول ہوتا ہے۔تعلیم وتعلّم سے مقصود وعظ ہے، وعظ گوئی سیکھنے کا سہل طریقہ : تہذیب: حضراتِ انبیاء ؑ کی تعلیم کا طریقہ وعظ تھا اور تعلیم وتعلّم سے اصل مقصود یہی ہے، بعض علما کا عذر یہ ہے کہ ہم کو وعظ کہنا نہیں آتا، یہ قابلِ سماعت نہیں۔ اس لیے کہ سب کام محنت کرنے ہی سے آتے ہیں اسی طرح وعظ کہنے کا ارادہ کیجیے اور کچھ دنوں محنت کیجیے، یہ کام بھی آجائے گا، جس کی سہل تدبیر یہ ہے کہ اول اول طلبہ کے سامنے مشکوٰۃ وغیرہ لے کر بیٹھ جاؤ اور کتاب دیکھ کر بیان کرو پھر کچھ دنوں بدون کتاب کے بیان کرنا شروع کرو، اسی طرح ایک دن خوب بیان کرنے لگوگے۔خطابِ خاص کا دستور العمل : تہذیب: جہاں اپنا اثر اور قدرت ہو وہاں خطابِ خاص سے نصیحت کریں، مثلاً باپ بیٹے کو، اُستاد شاگرد کو، پِیر مُرید کو اور خاوند بیوی کو امر بالمعروف کرے، جہاں نہ قدرت ہو، نہ اثر، وہاں خطابِ خاص مناسب نہیں بلکہ خطابِ عام مناسب ہے لیکن یہ خوب خیال رکھیں کہ اپنی طرف سے سختی اور درشتی کا اظہار نہ ہو بلکہ نرمی اور شفقت سے امر بالمعروف کرے، اس پر بھی مخالفت ہو تو تحمل کرے اور اگر تحمل کی طاقت نہ ہو تو خطاب خاص نہ کرے بلکہ خطابِ عام پر اکتفا کرے۔وعظ کہنے کی ترغیب : تہذیب: وعظ کا نفع اَتم واَعجل واَسہل ہے کہ ایک گھنٹہ میں پانچ چھ ہزار کا نفع ہو جاتا ہے۔ نیز عوام کو اس سے وحشت بھی نہیں ہوتی، بلکہ دلچسپی ہوتی ہے اور اس کا جلدی اثر ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو ضرور اختیار کرنا چاہیے۔عوام کو مدرسہ سے تعلق پیدا کرانے کا طریقہ : تہذیب: چندہ دینے والے زیادہ عوام ہیں تو علما کو چاہیے کہ عوام کو اپنی طرف مائل کریں جس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ہر مدرسہ میں ایک واعظ تبلیغ کے لیے رکھا جاوے جس کا کام صرف یہ ہو کہ احکام کی تبلیغ کرے وار اس کو ہدایا لینے کو قطعاً منع کر دیا جائے اور استحساناً یہ بھی کہہ دیا جائے کہ مدرسہ کے لیے بھی چندہ نہ کرے بلکہ اگر کوئی خود بھی دے تو قبول نہ کرے، بلکہ مدرسہ کا پتہ بتلا دے کہ اگرتم کو بھیجنا ہے تو اس پتہ پر بھیج دو، غرض یہ کہ واعظ کو مُحصِّل چندہ نہ بنایا جائے۔ جب وعظ بے غرض ہوگا، اس کا مخاطب پر بڑا اثر ہوگا، پھر عوام کو مدرسہ سے تعلق ہوگا کہ اس مدرسہ سے ہم کو دین کا نفع پہنچ رہا ہے۔ اس کی امداد کرنا چاہیے۔