انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔توجہ کے دو درجے اور ان کے حصول کا طریقہ :تہذیب: توجہ جو درجۂ عمل میں ہے وہ اختیار میں ہے اس کا علاج قصد واستحضار ہے، جو درجۂ حال میں ہے وہ توجہ کے درجۂ مذکورہ سے از خود حاصل ہوجاتی ہے۔تحقیق عجیب متعلق خشوع :حال: تراویح میں قرآن شریف سنانے میں خشوع وخضوع نہیں ہوتا حالانکہ ہر رکعت کو جب کھڑا ہوتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ خیال جناب حق تعالیٰ کی طرف عجز ونیاز کے ساتھ رکھوں گا۔ مگر جب قرآن شروع کرتا ہوں تو اس خیال میں قرأت ختم ہو جاتی ہے کہ کہیں بھول نہ جاؤں اور رکوع وسجدہ میں بہت افسوس ہوتا ہے۔ تہذیب: خشوع نام ہے سکون کا اور یہ خیال کہ کہیں بھول نہ جاؤں۔ حرکت ہے جو سکون کی ضد ہے اور کوئی شے اپنی ضد کے ساتھ مجتمع نہیں ہوتی اور یہ خیال طبعاًلازم ہے اس لیے حصولِ خشوع اس حالت میں متعذرہے عادتاً تو اس کا اہتمام ہی تکلیف مالا یطاق ہے لیکن یہ خشوع نہ ہونا مضر اور قابل افسوس ہے اس لیے نہیں کہ جو مقصود ہے خشوع سے کہ غیر مقصود کی تعریف توجہ نہ ہو وہ حاصل ہے پس گویا خشوع اگر چہ صورتاً نہیں مگر معنی حاصل ہے کیوں کہ یہ خیال تکمیل ہے طاعت کی اور طاعت مقصود ہے پس توجہ الی المقصود ہے چناں چہ بعض احادیث فضل خشوع میں لم یحدث فیھما نفسہ بشيء من الدنیا اور بعض میں الإنجیر وارد ہے اس کی توضیح رسالہ تشرف اول کتاب الصلوٰۃ میں قابلِ مطالعہ ہے، ہاں طبعاً ناگواری یہ نظیر ہے استغفار عن الغین کی ۔کون سا جمعیتِ قلب مطلوب ہے :تہذیب: جمعیتِ قلب وہ مطلوب ہے جس میںاپنی طرف سے اسبابِ مشوشہ کو اختیار نہ کیا جائے پھر اگر جمعیتِ حاصل نہ ہو تو یہ معذور ہے، میں اس پر قسم کھا سکتا ہوں کہ جو تشویشِ قلب اختیارسے ہو وہی مضر ہے اور اگر بلا قصد واختیار تشویش ہو وہ کچھ مضر نہیں مثلاً ایک شخص صاحبِ عیال ہے اس وجہ سے دنیا میں مشغول ہے اور اس کو کسی وقت یکسوئی نہیں ہوتی، نماز وذکر میں بلا قصد واختیار وساوسِ مشوشہ آتے ہیں تو کچھ مضر نہیں اور یہ قاعدہ کچھ حدیث النفس ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ حدیث اللسان یعنی کلامِ لسانی میں بھی یہی قاعدہ ہے کہ بلاضرورت ایک کلمہ بھی زبان سے نکالنا قلب کو ستیاناس کر دیتا ہے مگر قلب پر چوں کہ طبیعت محیط ہے اس لیے محسوس نہیں ہوتا، بخلاف اس کے اگر بضرورت تکثیر ہو تو کچھ بھی مضر نہیں مثلاً ایک شحص پہرہ دینے پر نوکر ہے وہ رات بھر جاگو جاگو کرتا ہے اس سے نور قلب میں کچھ بھی کمی نہ آئے گی، اسی طرح تحریر میں جب تک ضرورت کا مضمون لکھا جائے گا کچھ ضرر نہ ہوگا اور بے ضرورت اگر ایک جملہ بھی لکھا گیا تو قلب کا ناس ہوجائے گا کیوں کہ تحریر بھی ایک نوع کا کلام ہی