انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
داعیہ کی عملی مخالفت اِس مرض (جاہ) کا علاج بھی مرکب ہے ان ہی دو اجزا سے اوّل اس رذیلہ کی جومذمتیں اور وعیدیں وارد ہیں ان کا ذہن میں حاضر کرنا، بلکہ زبان سے بھی ان کا تکرار کرنا بلکہ ان مضامین سے اپنے نفس کو زبان سے خطاب کرنا کہ تجھ کو ان سے عقاب ہونے کا اندیشہ ہے اسی کے ساتھ اپنے عیوب کا استحضار اور نفس کو خطاب کہ اگر لوگوں کو ان رذائل کی اطلاع ہوجائے تو کتنا ذلیل اور حقیر سمجھیں تو یہی غنیمت سمجھ کر لوگ نفرت وتحقیر نہیں کرتے، نہ کہ ان سے توقع تعظیم ومدح رکھی جائے۔ اور عملی جزویہ ہے کہ مداح کو زبان سے منع کردیا جائے اور اس میں ذرا اہتمام سے کام لیا جائے، سرسری لہجہ سے کہنا کافی نہیں اور اس کے ساتھ ہی جولوگ ذلیل شمار کیے جاتے ہیں ان کی تعظیم کی جائے گو نفس کو گراں ہو۔مبتدی کے لیے وعظ گوئی کا طریقہ جس سے جاہ سے محفوظ رہے : تہذیب: مبتدی کو ایک خاص طریقہ سے وعظ گوئی کی اجازت ہے کوئی چھپا ہوا، وعظ لے لے اور اس کے مضامین سمجھاکر سنادے، اس طرح مقصود بھی حاصل ہوجائے گا اور لوگوںکا عقیدہ بھی نہیں بڑھے گاکہ بڑے عالم ہیں اپنی یاد سے علمی مضامین بیان کررہے ہیں بلکہ ہر شخص سمجھے گا کہ بے چارہ کتاب میں سے دیکھ دیکھ کر نقل کررہاہے۔خواہش عہدہ وترقی مراتب کے ازالہ کی ترکیب : تہذیب: ترقی مراتب وخواہش عہدہ کے ازالہ کی تدبیر اس کا سوچنا ہے کہ اس میں بجز اس کے کہ لوگوں کی نظر میں عزت زیادہ ہو اور کیا نفع ہے اوریہ (جاہ) محض ایک خیالی چیز ہے واقعی نفع کچھ نہیں۔اصل مقصود جاہ سے دفعِ مضرت ہے : حال: کمترین کا مذاق یہی ہے کہ گمنام رہوں اور حدیث میں جو دعا ہے: واجعلني في عیني صغیراً وفي أعین الناس کبیراً اس میں لوگوں کی نظر میں بڑا معلوم ہونے کی دعا کا امر ہے جس سے اندیشہ ترقی لذت جاہ کا ہے۔ جو خلافِ مذاق ہے۔ تہذیب: نہایت مبارک مذاق ہے اور اس دعا کی حقیقت اس مذاق کے خلاف نہیں اور اس حقیقت کا سمجھنا موقوف ہے حکمتِ جاہ کے سمجھنے پر اور وہ یہ ہے کہ جاہ خود مقصود نہیں بلکہ ذریعہ ہے دفعِ مفسدہ کا اور وہ مفسدہ اذیتِ خلق ہے اس کا دافع جاہ ہے کہ وہ مانع ہوتاہے ظالموں کی دست درازی سے، پس اصل مقصود یہ ہے کہ اذیتِ عوام وحکام سے محفوظ رہے تاکہ بلا تشویش مشغول طاعت رہ سکے، پس اس معنی کے تصور سے دعا کرنا نہ خلافِ مذاق ہوگا نہ نفس کو اس میںبڑے بننے کی لذت ہوگی۔جاہی وسوسہ کا علاج : حال: جب کوئی اپنے کسی مقصد کے لیے دعا کرنے کی ہمت کرتاہے اور قرینہ سے معلوم ہوتاہے