انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوتا ہے، گو شروع شروع میں کچھ تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے، مگر بعد میں بہت برکت ہوتی ہے۔ چناںچہ کانپور میں ایک بانس والے تھے، ان کے پاس جو شخص بانس لینے آتا وہ کہہ دیتے کہ یہ بانس اتنے دن رہے گا، یہ سن کر سب چھوڑ کر چلے جاتے۔ لوگوں نے ان سے یہ بھی کہا، یہ کام ایسے نہیں چلتا، اس نے جواب دیا کہ فروخت ہوں یا نہ ہوں میں تو سچ ہی بولوں گا، دوسری جگہ جب پہنچتے تو وہ دوکاندار بڑی تعریف کرتے، لوگ انہی کی دوکان سے خریدتے۔ تھوڑے دنوں کے بعد جب دوسروں کے بانس جلدی جلدی خراب ہونے لگے، اب رجوعات ان کی طرف ہوئیں، کیوں کہ یہ جو کہہ دیتے بانس ویسا ہی نکلتا۔ سب کی دوکانداری پھیکی پڑگئی، بس شروع میں تھوڑی سی دقت پڑتی ہے جب لوگوں کو اطمینانِ کامل ہو جاتا ہے تو پھر یہ دقت بھی رفع ہو جاتی ہے۔اس طریق میں قیل وقال سخت مُضر ہے : تحقیق: جس شخص سے تعلیم وذکر وشغل کا تعلق ہو، اس سے ایسے مسائلِ فقہیہ نہ دریافت کرے جس میں قیل وقال ہو، اس طریق میں قیل وقال بہت مضر ہے۔ چناںچہ میں نے احباب کو لکھ دیا ہے کہ باطنی حالات کے ساتھ مسائلِ فقہیہ نہ لکھا کرو۔اُمورِ طبعیہ فطریہ کا ازالہ نہ چاہیے بلکہ امالہ چاہیے : تحقیق: فرمایا کہ اُمورِ طبعیہ فطریہ بدلتے نہیں، ہاں! اس میں اضمحلال ہو جاتا ہے اور اہلِ تحقیق بھی اپنے مریدوں کے فطری امر کو بدلتے نہیں، کیوں کہ اصل مربی تو حق تعالیٰ ہیں، نہ معلوم کس کس مصالح کی بنا پر اس کے اندر وہ اُمورِ فطریہ رکھے گئے ہیں، اس لیے ان کے بدلنے کی کوشش نہ کرنا چاہیے صرف تعدیل کر دی جاوے اور مصرف بدل دیا جائے۔موتیٰ کو زندوں کے فعل کی اِطلاع : تحقیق: ایک شخص نے کہا کہ فلاں شخص مرنے والے کو کنوئیں کی تمنا تھی، اب وہ بن گیا تو کیا اس کو اس کا پتہ چل گیا ہوگا؟ فرمایا کہ نہیں، روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موتیٰ کو اپنے عزیز کے نیک وبد کا تو پتہ چلتا ہے، اس سے زیادہ ثابت نہیں اور روح تو وہاں ایسے کام میں مستغرق ہے کہ سے ان خرافات کی کیا پروا ہے۔افعال کے منشا پر نظر کرکے مواخذہ چاہیے : تحقیق: فرمایا کہ لوگوں کی بے ہودہ حرکتیں فی نفسہٖ اس قدر گراں نہیں ہوتیں، لیکن چوں کہ ان کا منشا میری نظر میں آجاتا ہے اور وہ سخت قبیح ہوتا ہے، کہیں کبر، کہیں بے فکری، کہیں اہلِ دین اور دین کی بے عظمتی، اس لیے وہ حقیقتِ امر مجھ کو زیادہ بُری معلوم ہوتی ہے جس پر لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ یہ تو اتنی غصہ کی بات نہ تھی، لوگ صرف ناشی کو دیکھتے ہیں اور میں منشا کو دیکھتا ہوں۔عوام اور علمائے عرب کا غلو : تحقیق: فرمایا کہ عوامِ عرب میں شرک بہت ہے وہاں کے علما بھی شرک کو توسّل کہتے ہیں، اسی لیے تو قدرت کی طرف سے نجدیوں کا تسلط ہوا جن کی یہ زبادتی ہے کہ توسل کو بھی شرک کہتے ہیں۔