انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اول ماموربہ ہے ثانی غیرماموربہ بدر جہا افضل ہے۔امر بالمعروف امر بالمعروف کا طریقہ : تہذیب: کسی کے متعلق تحقیق ہو جائے کہ یہ فلاں جرم کا مرتکب ہے تو امربالمعروف کے طور پر خود اس شخص سے کہے کہ میں نے تیرے متعلق ایسا سنا ہے اگر یہ بات سچ ہے تو تم کو توبہ کرنا اور باز رہنا چاہیے، اور اگر اس سے نہ کہہ سکے تو اس کے مربی سے کہدے جو اس کو روک سکتا ہو اگر تحقیق ہی نہ ہو پھر کسی سے بھی کہنا جائز نہیں، نہ خود اس شخص سے نہ اس کے مربّی سے، پھر تحقیق کا طریقہ ہر کام کے لیے جدا ہے بعض امور میں دو عادل گواہ ضروری ہیں، بعض میں چار، پھر ان گواہوں میں بھی مشاہدہ سے گواہی ضروری ہے، یہ نہیںکہ سب تمہاری طرح سنی سنائی کہتے ہیں۔جاہل کو امر بالمعروف جائز نہیں :تہذیب: قواعد امر بالمعروف جاننے کے لیے نصاب الاحتساب مصنفہ قاضی ضیاء الدین سنامی ؒ کا جاننا کافی ہے۔ جاہل کو امر بالمعروف جائز نہیں کیوں کہ وہ اِصلاح سے زیادہ فساد کرے گا، جیسے مکہ میں ایک جاہل نے مجھے امر بالمعروف کیا کہ تم عمامہ کیوں نہیں باندھتے؟ یہ سنت ہے، میں نے کہا کہ تم پائجامہ کی جگہ لنگی کیوں نہیں باندھتے؟ یہ سنت ہے، غرض یہ کہ سنتِ زائدہ کے لیے اسی سختی کے ساتھ امر بالمعرورف کرنا جائز نہیں۔امر بالمعروف کی شرط اول اور اس کے حصول کا طریقہ :تہذیب: امر بالمعروف کی اول شرطِ اخلاص ہے کہ محض لوجہِ اللہ نصیحت کرے، اپنے نفس کو خوش کرنے کے لیے نصیحت نہ کرے اور اس کا معیار یہ ہے کہ عینِ نصیحت کے وقت ہی یہ شخص مخاطب کو اپنے سے افضل سمجھے۔امر بالمعروف کے لے شفقت ضروری ہے :تہذیب: دوسروںکی نصیحت کے لیے شفقت شرط ہے، شفقت کا اثر مخاطب پر ضرور ہوتا ہے، ہاں کوئی بے حس ہو تو اور بات ہے، ہم کو عوام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرنا چاہیے جیسا کہ اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے اور اگر کسی سے علیٰحدگی اور کنارہ کشی اختیار کی جائے تو اس میں بھی خیر خواہی کا قصد ہونا چاہیے، چناںچہ ارشاد ہے: {وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا} [المزمل: ۱۰]۔ تہذیب: مومن جو مومن کو نصیحت کرتا ہے اس میں طعن وغصہ وتشدّد کا حق نہیں، تشدّد کے ساتھ کہنا صرف بڑوں کا حق ہے خواہ ان کی بڑائی کسی سببِ غیر اختیاری سے ہو جیسے باپ یا کسی التزامِ اختیاری سے ہو جیسے شیخ واُستاد۔تبلیغ وذکر کو خود مقصود سمجھ کر کرنا چاہیے نہ بہ طمع ترتّب ثمرہ : تہذیب: حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تبلیغ کے وقت