انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ملفوظات متعلق بیعت : شیخ ومرید میں مناسبت پیدا کرنے کا طریقہ مناسبت کے لیے نری بیعت کافی نہیں، بلکہ اور چیزیں بھی ضروری ہیں مثلاً: کچھ دن ؔ پاس رہنا، خصوصیاتؔ مزاج کاتتج اور ان کی رعایت کرنا۔ چندےؔ تعلیمی خط وکتابت جاری رکھنا وغیرہ، بلکہ شیخ کو تو طالب کے ساتھ زیادہ تر اس کے برتاؤ سے مناسبت پیدا ہوتی ہے۔صرف بیعت کافی نہیں : فرمایاکہ بیعت میں جس چیز کا مجھے انتظار رہتا ہے وہ باہمی مناسبت اور صحت عقیدہ ہے۔ فرمایا کہ حصولِ مقصود کا مدار بیعت پر نہیں، بلکہ نری تعلیم تو حصول مقصود کے لیے بالکل کافی ہے، لیکن نری بیعت ہرگز کافی نہیں۔صورتِ بیعت کا درجہ : فرمایا کہ صورت بیعت کا محض وہ درجہ ہے جو پھولوں کی کیاری میں گھاس کا ہوتا ہے کہ اس سے ایک خوش نما تو ضرور پیدا ہوجاتی ہے اور پھولوں کی رونق بڑھ جاتی ہے، لیکن پھولوں کے نشو ونما میں گھاس کو کچھ دخل نہیں۔بیعت کی صورت و حقیقت : فرمایاکہ بیعت کی ایک صورت ہوتی ہے ایک حقیقت۔ اس کی صورت مطلوب نہیں، حقیقیت مطلوب ہے۔ چناں چہ بیعت کی حقیقت ہے اعتقادِ واعتماد جازم اپنے تعلیم کرنے والے پر، یعنی اس کو یہ یقین ہو کہ یہ میرا خیر خواہ ہے اور جو مشورہ دے گا وہ میرے لیے نہایت نافع ہوگا۔ غرض اس پر پورا اطمنان ہو اور اپنی رائے کو اس کی تجویز وتشخیص میں مطلق دخل نہ دے، جیسا کہ طبیبِ خاذق ومشفق کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے، بس ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔ باقی رہی بیعت کی صورت وہ اول وہلہ میں خواص کے لیے نافع نہیں عوام کے ہے البتہ اول دہلہ میں بیعت کی صورت بھی نافع ہوتی ہے، کیوں کہ اس سے ان کے قلب پر ایک عظمت اور شان اس شخص کی طاری ہو جاتی ہے جس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ اس کے قول کو باوقعت سمجھ کر اس پر عمل کرنے لے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔خواص کے لیے کچھ مدت کے بعد بیعت نافع ہوتی ہے، کیوں کہ اس کا خاصہ ہے کہ جانبین میں ایک خلوص پیدا ہو جا تا ہے۔بیعت کا لطف کب ہے : ایک بار فرمایا کہ بیعت کا لطف تو جبھی ہے جب پہلے تعلیم حاصل کرے اور پھر بیعت ہو، کیوں کہ ظاہر ہے کہ جب اس کو تعلیم سے نفع ہوگا تو اپنے معلم سے محبت پیدا ہو جانے کے بعد بیعت میں جو لطف ہوگا وہ اس کے مثل کہاں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک تو عقد کی یہ صورت ہے کہ ماں باپ نے جس کے ساتھ چاہا نکاح کردیا، پھر اس کے بعد تعلق پیدا ہوا، اور ایک صورت یہ ہے کہ اتفاقاً اضطراراً کسی پر عاشق ہوگئے، پھر حدودِ عفّت میں نہایت سختی کے ساتھ رہ کر اس کی کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح نکاح ہو جائے چناں چہ جدّوجہد بسیار اور شدید کلفتِ انتظار اور بڑی تمناؤں کے بعد خدا خدا کر کے اس میں کامیابی ہوئی اور نکاح ہو گیا۔ تو اب دیکھ لیجیے کہ نکاح کی ان دونوں صورتوں