انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تب بھی ظلم تو ہوا۔ جس سے معافی مانگنا واجب ہے تو معافی نہ مانگنے میں اگر کبر کا گناہ نہ ہو تو ظلم کا تو ہوا۔ فرمایا کہ جو تشتت تحصیل جمعیت میں ہو وہ اثر میں جمعیت ہی ہے۔ مُضر نہیں۔تعلقِ غالب کی تعریف : فرمایا کہ تعلق مغوب مذموم نہیں، بلکہ ایسا تعلق مذموم ہے کہ محلِ تعلق کے بعد یا اس کے فوت سے قلب پر ایسا اثر ہو کہ قلب کو ایسا بے چین کردے کہ اسی کے تصور وحسرت میں اشتغال ہو جاوے اور اس اشتغال سے طاعات میں قلت وضعف آجاوے۔ اگر یہ نوبت نہ پہنچے تو محض حزن کا اثر مانع نہیں ہے۔ کیا حضرت یعقوب ؑ کے حزن شدید کا کوئی انکار کر سکتا ہے اور کیا ان کی حالت کو کوئی مانع عن الحق کہہ سکتا ہے۔علاج حبِّ جاہ : ایک طالب نے لکھا کہ میرے اندر حبّ جاہ ہے، جی چاہتا ہے کہ لوگ میری تعریفیں اور ثنائیں بیان کریں اور تعریف سے ایک فرحت اور خوشی ہوتی ہے، اگر کوئی تعریف یا مذمت سے خاموش رہے تو یہ نفس پر نہایت ناگوار گزرتا ہے الخ اس کو جواب تحریر فرمایا کہ ہر علاج میں مجاہدہ کی ضرورت ہے، یعنی ’’داعیہ نفس کا استحضار اور داعیہ کی عملی مخالفت۔‘‘ اس مرض کا علاج بھی مرکب ہے ان ہی دو جُز سے: اولؔ اس رذیلہ کی جو مذمتیں اور وعیدیں وارد ہیں ان کا ذہن میں حاضر کرنا، بلکہ زبان سے بھی انکارِ تکرار، بلکہ ان مضامین سے اپنے نفس کو زبان سے خطاب کرنا کہ تجھ کو ایسا عقاب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح سے عیوب کا استحضار اور نفس کو خطاب کہ اگر لوگوں کو ان رذائل کی اطلاع ہو جاوے تو کتنا ذلیل وحقیر سمجھیں، تو یہی غنیمت سمجھ کہ لوگ نفرت و تحقیر نہیں کرتے نہ کہ ان سے توقع تعظیم ومدح کی رکھی جاوے اور عملی جزو یہ ہے کہ مدّاح کو زبان سے منع کیا جاوے اور اس میں ذرا اہتمام سے کام لیا جاوے سرسری لہجہ سے کہنا کافی نہیں اور اس کے ساتھ ہی جو لوگ ذلیل شمار کیے جاتے ہیں ان کی تعظیم کی جاوے، گو نفس کو گراں ہو۔ اس پر عمل کر کے ایک ہفتہ کے بعد پھر اطلاع دی جاوے۔علاجِ ترفعّ : اول میں یہ اعتقاد رکھیں کہ میں سب سے کمتر ہوں اور اس اعتقاد کے لیے اپنے معائب کا استحضار معین ہوگا اور جن کی بے وقعتی ذہن میں آوے ان کی خوب تکریم کی جاوے اور تکلف سے ان سے سلام کیجیے، گو نفس کو ناگورای غیر اختیاری ہے، اس پر مواخذہ نہیں ہے، لیکن معاملہ اختیاری ہے اس میں اخلال موجب مواخذہ ہے، ان شاء اللہ اس سے منشائے فساد بھی ضعیف ہوجاوے گا واللّٰہ الموفق۔ ایک طالب نے لکھا کہ رضا بالقضا کے حصول کے لیے کوئی علاج تحریر فرمایا جاوے اور اس کا معیار اور مقدار بھی کہ انسان اس کے متعلق کس قدر کا مکلف ہے؟ جواب تحریر فرمایا کہ رضا بالقضا کی حقیقت ترک اعتراض علی القضاء ہے، اگر الم کا احساس ہی نہ ہو تو رضائے طبعی