انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تعالیٰ راضی ہوتے ہیں یہ تو اعلیٰ درجہ کا اخلاص ہے اور ایک نیت یہ ہے کہ عیادت سے یہ بیمار خوش ہوگا، یہ بھی اخلاص ہے، کیوں کہ تطییب قلب مومن بھی عبادت ہے۔ ایک نیت یہ ہے کہ بیمار کا حق ہے کہ اس کی عیادت کی جائے، یہ بھی اخلاص ہے۔ ایک صورت یہ ہے کچھ نیت نہ ہو کوئی غرض دینی یا دنیوی ذہن میں نہیں، یہ بھی اخلاص ہے، بس ریا یہ ہے کہ اس نیت سے جائے کہ اگر میں نہ جاؤں گا تو کل کو یہ مجھے پوچھنے نہ آئے گا۔ یہ دنیوی غرض ہے، بس جب تک دنیوی غرض ہو اخلاص نہیں ہے۔خلو ذہن اخلاص ہے :تہذیب: خلو ذہن بھی اخلاص ہے، اگر کوئی نیت حاضر نہ ہو تو اس کے سوچنے میں دیر نہ کرو، بے فکر ہو کر کام کر لو، تم مخلص ہی ہوگے، ریا کار نہ ہوگے، تم اپنی طرف سے بُرا قصد نہ کرو۔صدق، اخلاص کی تحقیق اور اس کی تحصیل وتسہیل کا طریقہ :تہذیب: جس طاعت کا ارادہ ہو اس کا کمال کا درجہ اختیار کرنا ، یہ صدق ہے۔مثلاً: نماز کو اسی طرح پڑھنا جس کو شریعت نے صلوٰۃِ کاملہ کہا ہے۔ یعنی اس کو مع آدابِ ظاہرہ وباطنہ کے ادا کرنا۔ علیٰ ہٰذا تمام طاعات میں جو درجہ کمال کا شریعت نے بتلایا ہے۔ اس کا خیال کرنا صدق ہے۔ اور اس طاعت میں غیر طاعت کا قصد نہ کرنا یہ اخلاص ہے۔ مثلاً: نماز میں ریا کا قصد نہ ہو جو کہ غیر طاعت ہے۔ رضائے غیر حق کا قصد نہ ہو جو غیر طاعت ہے اور صدق موقوف ہے مابہ الکمال کے جاننے پر اور اخلاص موقوف ہے غیر طاعت کے جاننے پر، اس کے بعد نیت جزو اخیر رہ جاتا ہے۔ یہ دونوں اختیاری ہیں۔ طریقِ تحصیل تو اسی سے معلوم ہو گیا۔ آگے رہا معین وہ استحضار ہے وعدہ اور وعید کا اور مراقبہ نیت کا، یعنی اس کی دیکھ بھال کہ میری نیت غیر طاعت کی تو نہیں۔اخلاص وخشوع کا فرق :تہذیب: اخلاص راجع ہے نیت کی طرف اور خشوع وخضوع سکون ہے جوارح وقلب کا حرکاتِ منکرہ ظاہرہ یا باطنہ سے، اگرچہ ان حرکات میں نیت غیر طاعت کی نہ ہو۔ پس اخلاص خشوع سے مفارق ہوسکتا ہے۔اخلاص کے دو درجے :سوال: کسی طاعت میں غیر طاعت کا قصد تو نہ ہو مگر دوسری طاعت کا قصد ہو، جیسے نماز کی حالت میں ریا کا قصد نہیں، نہ اور کسی فعل غیر طاعت کا قصد ہے مگر نماز کی حالت میں قصداً کسی شرعی مسئلہ کا مطالعہ کرتا ہے یا کسی سفرِ طاعت کا نظام سوچ تا ہے، قصداً تو یہ اخلاص کے خلاف ہے یا نہیں؟ تہذیب: یہ مسئلہ دقیق ہے۔ قواعد سے اس کے متعلق عرض کرتا ہوں ۔ اس وقت دو حدیثیں میری نظر میں ہیں: ایک مرفوع جس میں یہ جزو ہے: صلی رکعتین مقبلاً علیہما بقلبہ اور دوسری موقوف حضرت عمرؓ کا قول جس میں یہ جزو ہے: إني أجھز جیشي وأنا في الصلوٰۃ مجموعہ روایتین سے دو درجے مفہوم ہوئے: ایک یہ کہ جس طاعت میں مشغول ہے اس کے غیر کا قصداً استحضار بھی نہ ہو اگرچہ وہ بھی طاعت ہی ہو۔ دوسرا درجہ یہ کہ دوسری طاعت کا استحضار ہو جائے۔ اور ان دونوں