انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مریدوں کو جو دنیوی مشاغل میں زیادہ مشغول تھے صرف اتنا کام بتلایا ہے کہ ہر نماز کے بعد تین دفعہ لا إلہ إلا اللّٰہ جہرا ًکہہ لیا کرو۔ اب رسمی پیروں کے یہاں یہ رسم ہوگئی ہے کہ ہر نماز کے بعد یا فجر وعصر کے بعد سارے نمازی مل کر جہراً لا إلہ إلا اللّٰہ کہتے ہیں اور اس کا سختی کے ساتھ التزام کرتے ہیں، حالاں کہ سب کے واسطے بزرگوں نے نہیں کہا تھا بلکہ خاص خاص لوگوں کو بتلایا تھا، مگر جاہلوں نے اس کو حکمِ عام ہی بنالیا اور التزام کرلیا، اسی واسطے علما نے اس کوبدعت کہا ہے۔نظامِ عالَم علما ہی کے اتباع سے قائم رہ سکتاہے : ارشاد: عوام کو لازم ہے کہ علوم میں صوفیہ کا اتباع نہ کریں۔ بلکہ علما اور جمہور کا اتباع کریں، کیوںکہ یہ لوگ منتظم ہیں۔ نظامِ شریعت بلکہ نظامِ عالَم علما ہی کے اتباع سے قائم رہ سکتا ہے یہ علما منتظم پولیس ہیں کہ مخلوق کے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگریہ اپنا کام چھوڑدیں تو صوفی صاحب کو حجرے سے نکل کر یہ کام کرنا پڑتا اور سارا حال وقال رکھا رہ جاتا کیوں کہ اصلاحِ خلق کاکام فرضِ کفایہ ہے۔خدمت کرنے اور لینے کے بعض اصول : ارشاد: خدمت وہی اچھی ہے جس سے بزرگوں کو گرانی نہ ہو، بزرگوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ اپنے خدام کے ساتھ ایسی تواضع نہ کریں جس سے ان کو خجلت وکلفت ہو بلکہ بزرگوں کے لیے تو اس کی ضرورت ہے کہ کبھی کبھی خدام سے کہہ دیا کریں کہ جوتے ہواں سے اٹھاکر یہاں رکھ دو۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ مریدوں کو ذلیل کیا کریں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس سے خدام خوش ہوں گے کہ ہم کو اپنا سمجھتے ہیں اور کبھی یہ خدمت بہ نیت اصلاح وتعلیمِ تواضع کے لینا چاہیے۔شیخ کے سامنے اپنے کو مٹانا طریق کی شرطِ اوّل ہے : ارشاد: افسوس! آج کل مبتدی عوام کے سامنے تو اپنے کو کیا مٹاتے یہ تو اپنے کو شیخ کے سامنے بھی نہیں مٹاتے جس کے سامنے اپنے کو پامال کردینا طریق کی اوّل شرط ہے مگر یہ اس کے سامنے بھی اپنی فکر اور رائے کو فنا نہیں کرتے۔ خود رائی سے کام لیتے ہیں،حالاں کہ کمال اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک اپنے کو کسی کامل کے ہاتھ میں کالمیت في ید الغسال سپرد نہ کردو اور حقائق کا انکشاف بھی اسی پر موقوف ہے۔کامل توجہ الی الخلق میں بھی توجہ الی الحق سے غافل نہیں : ارشاد: کامل توجہ الی الخلق میں بھی توجہ الی اللہ سے غافل نہیں ہوتا، کیوں کہ توجہ الی الحق کے دو جز ہیں: ایک ذکر دوسرے طاعت۔ اور وہ توجہ الی الخلق میں ان دونوں سے غافل نہیں ہوتے، ذکر سے تو اس لیے غافل نہیں ہوتے کہ کوئی کام ان کو یادِ محبوب سے نہیں ہٹا سکتا، ہر کام اور ہر حالت میں ان کا دھیان اسی طرف لگا رہتاہے۔ چناںچہ یہی حالات عارف کی جمعہ کے دن حجامت وغسل وتطییب میں ہوتی ہے، وہ یہ سب کام محض محبوب کے لیے کرتاہے۔ اور عین اشتغال بہذہ الاعمال کے وقت محبوب کی طرف اس کا دھیان ہوتاہے، اس کا راز یہ ہے کہ جو چیز اوّل میں پیوستہ ہوجاتی ہے، اس سے کوئی چیز حاجب ومانع نہیں ہوتی۔ تمہارے دل میں دنیا پیوست