انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۷۶) اِشراف وسوال ناجائز ہے : فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے: ما أتاک من ہذا المال وأنت غیر مشرف ولا سائل فخذہ۔ (۷۷) یہ ہرگز زیبا نہیں کہ آدمی اپنی حالت پر ناز کرے اور دوسروں کو حقیر سمجھے، خود نفسِ ایمان بھی اپنے اختیار میں نہیں، بس حق تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو یہ دولت عطا فرما رکھی ہے، لیکن وہ جب چاہیں سلب کر سکتے ہیں۔ چناں چہ ابو عبد اللہ ایک بزرگ تھے، بغداد میں ان کی وجہ سے ۳۰ خانقاہیں آباد تھیں، وہ ایک بار مع اپنے مجمع کے چلے جارہے تھے، راستہ میں ایک گرجا آیا، جہاں عیسائی صلیب پرستی کر رہے تھے، وہاں ایک عیسائن پر مفتون ہوگئے، ساتھیوں سے کہا: اب تمہارے کام کا نہیں رہ گیا تم لوگ چلے جاؤ، ساتھیوں کو بہت صدمہ ہوا اور مایوس ہوکر چلے گئے، جب ایک مدّت کے بعد اتفاق سے اس مقام پر واپس ہوئے اور چاہا کہ شیخ کو تلاش کیا جاوے کہ کس حال میں ہیں۔ چناں چہ تلاش کیا تو دیکھا کہ عیسائیوں کا لباس پہنے ہوئے ہیں، سامنے خنزیروں کی ایک بڑی قطار ہے، چھڑی ہاتھ میں ہے اور سوروں کو چرا رہے ہیں، خدام نے ملاقات کی اور پوچھا کہ حضرت آپ کو کچھ قرآن شریف بھی یاد ہے؟ فرمایا کہ ہاں ایک آیت یاد ہے: {وَمَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ} [البقرۃ: ۱۰۸]، پھر پوچھا کہ کوئی حدیث یاد ہے؟ کہا کہ صرف ایک حدیث یاد ہے:’من بدل دینہ فاقتلوہ اور کچھ یاد نہیں، حالاں کہ ان بزرگ کو تیس ہزار احادیث یاد تھیں اور سبعہ کے حافظ تھے، وہ لوگ ان کا حال یہ دیکھ کر بہت روئے اور خود وہ بزرگ بھی روئے، حتیٰ کہ روایت ہے کہ خنزیر تک روئے، اس کے بعد جب وہ آگے بڑھے تو سامنے ایک نہر کے قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں وہی بزرگ نہر کی طرف سے غسل کیے ہوئے ایک سفید چادر تہمد مسلمانوں کا سا باندھے ہوئے آرہے ہیں جب پاس آئے تو کہا: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدًا عبدہ ورسولہ لوگوں کو بے حد خوشی ہوئی، اس کے بعد ان بزرگ سے دریافت کیا کہ حضرت یہ کیا واقعہ تھا؟ تو ان بزرگ نے فرمایا کہ جب پہلے میں اس گرجے کے پاس سے ہوکر گذرا اور ان عیسائیوں کو دیکھا تو میں نے ان کو بہت حقیر سمجھا! تو فوراً الہام ہوا کہ اچھا! کیا تم اپنے ایمان کو اپنے اختیار میں سمجھتے ہو جو ان کو حقیر سمجھتے ہو؟ اور اسی وقت دیکھا کہ میرے اندر سے ایک نور نکلا اور غائب ہوگیا اور میرے باطن میں ظلمت ہی ظلمت چھا گئی، اس کے بعد ظاہر سامان یہ ہوا کہ وہاں کنواں پر ایک لڑکی عیسائن کی پانی بھر رہی تھی، میں اس پر عاشق ہوگیا، میں نے اس کو یہ پیام دیا، اس نے یہ شرط لگائی کہ ہمارے سوّر چراؤ، میں اسی ساتھ کے رہتا تھا، اب تمہاری ملاقات کے بعد میں نے حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ حضور اب تو بہت سزا مل گئی، اب تو معاف کیا جاوے، تو میں نے دیکھا کہ میرا وہی نور جو میرے اندر سے نکلا تھا پھر میرے اندر داخل ہوگیا اور مجھ کو اسلام کی توفیق ہوگئی۔