انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے بعد نمبر وار ہر نوٹ کے جوابات دینے شروع کیے کہ اس میں اگر یہ مفاد ہے تو یہ مضرت ہے۔ من جملہ اور نوٹوں کے ایک نوٹ یہ بھی تھا کہ ملک سے ہوشیار اور سمجھدار نو عمر لوگ منتخب کر کے جرمن وغیرہ بھیجے جاویں تاکہ صنعت وحرفت سیکھ کر آویں اور پھر دوسرے لوگوں کوملک میں آکر سکھلاویں۔ اس پر فریایا کہ مشورہ تو بالکل ٹھیک ہے، لیکن طریقِ کار غلط ہے۔ اس لیے کہ جو لوگ یہاںسے بھیجے جاویں گے وہ وہاں جاکر آزاد ہو جاویں گے، دوسرے جگہ کے جذبات اور خیالات کا اُن پر اثر ہوگا، پھر جب ملک میں آویں گے تو ان کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ اوروں کے اندر بھی وہی جذبات اور خیالات پیدا ہو جاویں گے، اس لیے اس کی دوسری مفید صورت یہ ہے کہ اہلِ کمال لوگوں کو جو صنعت وحرفت میں کامل وماہر ہیں باہر سے یہاں بلایا جاوے اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو سکھلایا جاوے تو چونکہ وہ محکوم ہوں گے اور ہر قسم کی ان کی نگرانی گی اس سے وہ اندیشہ نہ ہو گا۔ راوی بیان کرتے تھے کہ مجھ کو حیرت ہوگئی ان کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ نوٹ لکھ کر لایا ہے اور اس ترتیب سے نوٹ ہیں۔ کہتے تھے کہ میں نے دربار برخواست ہونے پر امیر صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کو کشف ہوتا ہے یہ تو میں لکھ کر لایا تھا اور کسی کو اطلاع ہی نہ تھی۔ فرمایا کہ کشف تو بزرگوں کو ہوتاہے میں ایک گنہگار شخص مجھ کو کیا کشف ہوتا، لیکن حق تعالیٰ نے عقل عطا فرمائی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جہاں تک کشف کی رسائی ہوتی ہے وہیں تک عقل کی بھی رسائی ہوتی ہے اور اس پر ایک مثال بیان فرمائی کہ دیکھو دو چیزیں ہیں: ایک ٹیلیفون اور ایک ٹیلی گراف، سو کشف ٹیلیفون کے مشابہ ہے کہ جس میں صاف صاف گفتگو ہوتی ہے اور عقل ٹیلی گراف ہے، اس میں کچھ اشارات ہوتے ہیں، قدرے خوض کی ضرورت ہوتی ہے۔ عجیب تحقیق بیان کی، یہی تو ہے مومن کی فرست جو ایک نور ہے اور عطائے خدا وندی ہے اور یہ اکثر پیدا ہوتا ہے تقویٰ وطہارت سے۔ ۱۸۔اَودھ کا تکلف : ۱۔ فرمایاکہ دو شخص اَودھ کے تھے ریل میں سفر کا ارادو تھا: مگر عین سوار ہونے کے وقت تکلف کی مشق ہو رہی تھی۔ ایک کہتا تھا: قبلہ آپ سوار ہوں، دوسرا کہتا تھا کہ کعبہ آپ سوار ہوں اس میں ریل چھوٹ گئی۔ ۲۔ ایسے دو شخص کیچڑ میں گر گئے، اب آپس میں ایک دوسرے کو کہہ رہا ہے: قبلہ آپ اٹھیے کعبہ آپ اٹھیے۔ ۱۹۔انگریزوںمیں ظاہری تہذیب بہت ہے : فرمایا: ایک شخص بیان کرتے تھے کہ ایک نواب زادے ایک جہاز میں سوار تھے اور ان کے چند دوست احباب ہمراہ تھے۔ ایک انگریز بھی بڑے درجہ کا اسی جہاز میں سفر کر رہا تھا اور اُن کو رئیس سمجھ کر ان کے پاس ملنے آیا تھا اور انگریزی میں بات چیت کرتا تھا۔ یہ یوں سمجھے کہ یہ اُردو نہیںجانتا، انھوں نے