انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قلق واضطراب میں رہتاہے اور علاج ہی کی کوتاہی اور تدبیر علاج ہی کا قصور بتلاتاہے۔ بخلاف قائلِ تقدیر کے کہ گو یہ بھی باقتضائے طبعی وفاتِ ولد زوجہ وغیرہ پر حزن وملال کا اثر اپنے قلب میں پائے گا اور اس کا نفس بھی نقصِ علاج وغیرہ کو سبب بناکر پیش کرے گا، لیکن اس کو معاً یہ خیال پیدا ہوگا کہ در حقیقت اس کا وقت ہی آگیا تھا، حیاتِ مستعار ختم ہوچکی تھی اور نقصِ علاج بھی اس کے واسطے مقدر تھا اور جب اس کی موت کے واسطے خدا وندِ عالم نے عالمِ ظاہر میں نقصِ علاج ہی کو علت بنایاتھا تو کوئی قوت ایسی نہ تھی جو اس کے نقصانِ علاج کو پورا کرتی۔ بس اس کے بعد اس کو بالکل صبر آجائے گا اور کسی قسم کا رنج وملال اور قلق واضطراب کا اثر اس کے قلب پر نہ رہے گا۔تفویض کی لذت مرچوں بھرے کباب کی سی ہے : تہذیب: اسلام وجہ بمعنی تفویض ہے، یعنی اپنے کو ہر تصرف الٰہی کے لیے آمادہ کردینا۔ یہ وہ چیز ہے جو پریشانی کو بھی لذیذ کردیتی ہے، مگر وہ لذت مٹھائی اور حلوے جیسی نہیں بلکہ مرچوں بھرے کباب جیسی ہے، جس کی لذت وہی جانتے ہیں جو مرچ کھانے کے عادی ہیں۔ چناںچہ عارفین کو بھی ہر طرح کی مشقت اور مصائب وآلام پیش آتے ہیں مگر ان کو اس میں بھی لذت آتی ہے اور وہ یوں کہتے ہیں: ناخوش تو خوش بود برجانِ من دل فدائے یار دل رنجانِ منتقویٰ کامل فنا ہے : تہذیب: تقویٰ کامل یہ ہے کہ اپنی جان خدا تعالیٰ کے سپرد کردے کہ وہ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں۔ صوفیہ کی اصطلاح میں اسی کو فنا کہتے ہیں۔ جیساکہ ابراہیم ؑ نے کیا تھا کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ذبحِ ولد پر آمادہ ہوگئے تھے اور جو شخص ذبحِ ولد پر آمادہ ہوجائے وہ اپنی جان دینے پر ضرور آمادہ ہوگا، کیوںکہ بیٹے کا ذبح کرنا اپنے ذبح سے اشد ہے۔حضور ﷺ کا توکل اور عدمِ غم کی وجہ : تہذیب: حضور ﷺ کی نظر ہر وقت خدا پر تھی، مخلوق پر نظر نہ تھی، اس لیے آپ کو کسی کے فعل سے رنج نہ ہوتا تھا، مگر یہ برتاؤ ان امور میں تھا جس کا تعلق خاص آپ ﷺ کی ذات سے تھا۔ امور شرعیہ کے بارے میں یہ برتاؤ نہ تھا۔ کیوںکہ احکامِ شرعیہ کی مخالفت پر تو آپ ﷺ کو اتنا غصہ آتا تھا کہ کوئی برداشت نہ کرسکتا تھا۔تقدیر نے مسلمانوں کو بہادر بنادیا ہے : تہذیب: تقدیرنے مسلمانوں کو بہاد ر اور شیر دل بنادیا ہے۔ جو شخص تقدیر کا معتقد ہے وہ ادنیٰ درجہ کی تدبیر سے بھی کام شروع کردیتاہے۔لاحول ولاقوۃ کی حقیقت :تہذیب:لاحول ولا قوۃ کی حقیقت عدمِ التفات ہے، کیوںکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ