انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اینجا جزاینکہ جاں بسپارند چارہ نیستنکاح سے کیا کیا سبق حاصل ہونا چاہیے : ارشاد: ۱۔ نکاح کا جو اثر زوجہ پر ہوتا ہے اس سے ہم کو بھی سبق لینا چاہیے کہ خدا سے تعلق رکھنے والوں کو یگانہ وآشنا سمجھو اور جو اس سے بے تعلق ہو اس کو بے گانہ ونہ آشنا سمجھو، خدا کے دوستوں کو اپنا دوست اور اس کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھو۔ ۲۔ اس کا تصور کیا کرو کہ جیسے میاں بیوی میں شکر رنجی کے بعد بہت جلد صفائی ہو جاتی ہے یوں ہی حق تعالیٰ سے تعلق کے بعد اگر کچھ کوتاہی ہو جائے تو بعد توبہ ومعذرت کے وہ تعلق ویسا ہی بحال کر دیں گے۔ ۳۔ بیوی کے تعلق میں ایک بات یہ ہے کہ بعض دفعہ میاں کو بیوی کی جہالت اور نادانی سے تکلیف بھی ہوتی ہے، تو وہ تحمل کرتاہے۔ خاص کر اگر بیوی محبوبہ بھی ہو تو اس کے ہر امتحان پر تحمل کیا اجاتا ہے اور اس کے ناز ونخروںکو برداشت کیاجاتا ہے پھر یہ کیا غضب کہ حق تعالیٰ کے امتحانات کا تحمل نہ کیا جائے اگر کبھی وہ بیمار کر دیں یا مال کا نقصان کر دیں یا کسی عزیز کو موت دے دیں تو اس پر ناگواری ظاہرکی جاتی ہے۔ ۴۔ ایک تکوینی راز نکاح کا یہ ہے کہ بندہ کا کمال یہ ہے کہ وہ مظہرِ اتم حق تعالیٰ کا بن جائے سو بدونِ نکاح کے یہ مظہریت اتم نہیں ہوتی۔ کیوں کہ حق تعالیٰ کی ایک شان یہ بھی ہے کہ {إِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ} [یٰس: ۸۲]۔ کہ وہ جب کسی چیز کو بنانا چاہتے ہیں۔ تو اس سے کہہ دیتے ہیں ’’ہوجا‘‘ وہ فوراً ہو جاتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بدون احتیاجِ اسباب کے محض ارادہ ہی سے جس چیز کو چاہتے ہیں پیدا کر دیتے ہیں اور اس شان کا ظہور بندہ میں نکاح ہی سے ہوتا ہے کہ بچے کے پیدا ہونے میں بندہ بھی زیادہ اسباب کے اہتمام کا محتاج نہیں، بے مشقت ایک فعل کیا اور اگر کوئی عارض نہ ہوا تو حمل رہ گیا۔ بچہ بن گیا، گو واقع میں یہاں بھی اسباب ہوتے ہیں مگر وہ اسباب ایسے نہیں ہیں جن کی تلاش وفکر کی ضرورت ہو۔حرام چیزوں سے حقیقی شفا ہوتی ہی نہیں : ارشاد: جن چیزوں کو شریعت نے حرام کیا ہے۔ ان میں ضرر ہی غالب ہے گو کسی خاص وقت میں ضرر کا ظہور نہ ہو، پس حرام سے جو شفا ہوتی ہے وہ حقیقت میں شفا ہی نہیں بلکہ وہ ایک مرض کو دفع