انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
مگر اس کی پابندی سختی سے کرائی جائے اس کو سخت نہیں کہا جاتا، جیسے نماز کہ اس کے سارے ارکان بہت ہی سہل ہیں اور بحالتِ عذر تو اس میں اور بھی سہولتیں اور گنجایشیں رکھ دی گئی ہیں لیکن اس کی پابندی بہت سختی کے ساتھ کرائی جاتی ہے یہاں تک کہ بعض ائمہ کے نزدیک تو تارکِ صلوٰۃ واجبُ القتل ہے۔سختی ومضبوطی کا فرق : فرمایا کہ اگر اصول تو ہوں نرم لیکن ان کی پابندی سختی کے ساتھ کرائی جاوے تو یہ سختی نہیں بلکہ مضبوطی ہے، جیسے ریشم کا رسّا نرم تو ایسا کہ چاہے اس میں گِرہ لگا لو، لیکن ساتھ ہی مضبوط اتنا کہ اگر اس سے ہاتھی کو باندھ دیا جاوے تو وہ اس کو توڑ نہیں سکتا۔اُصولِ صحیحہ کو مقتضائے طبعی بنانے کی ترغیب : فرمایا کہ فقط دوسروں ہی کو اُصولِ صحیحہ کا پابند نہیں بناتا بلکہ اپنے آپ کو بھی تو پابند کرتا ہوں اور بہ تکلف وتصنع نہیں، بلکہ اللہ کا شکر ہے کہ اصولِ صحیحہ کی پابندی میرا مقتضائے طبعی ہوگیا ہے گو اس میں کسی قدر مشقت بھی ہو اور گو اس کا تعلق میرے محکومین اور تابعین ہی سے ہو، کیوں کہ اصولِ صحیحہ بہر حال قابلِ احترام ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر اہلِ معاملہ کو میری رعایتِ اُصول کا علم بھی نہیں ہوتا، لیکن میرے قلب کو تو تسلی رہتی ہے کہ میں نے اصولِ صحیحہ کی رعایت کی، کسی کو جتلانا تھوڑا ہی مقصود ہے، ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ جب کبھی مجھ کو اپنا حال حکیم محمد ہاشم صاحب مرحوم سے کہنا ہوتا (باوجود اس کے کہ ان کو مجھ سے بہت ہی تعلق تھا، یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے بیعت بھی ہوگئے تھے) تو خود ان کے گھر جاکر اپنا حال کہتا، وہ بہت شرمندہ ہوتے، لیکن میں کہہ دیتا کہ اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں، محتاج کو محتاج الیہ کے پاس آنا چاہیے نہ کہ برعکس۔ البتہ جب گھر میں کسی کی نبض دکھانی ہوتی تو پھر بلا تکلف ان کو بلا لیتا، کیوں کہ وہ موقع مجبوری کا تھا، وہاںاُصولِ صحیحہ کا یہی مقتضا تھا۔محکومین کا بھی احترام چاہیے : فرمایا کہ گھر میں کھانا کھا کر میں کبھی نہیں کہتا کہ برتن اُٹھا لو بلکہ یہ کہتا ہوں کہ برتن اُٹھوا لو، گو وہ محکوم ہیں، لیکن ان کی حاکمیت کا جو ان کو گھر میں اپنے محکومین پر حاصل ہے لحاظ رکھتا ہوں، کیوں کہ محکومین کا بھی احترام کرنا چاہیے، پھر چاہے وہ خود اُٹھا لیں یا کسی اور سے اُٹھوا لیں، میں نوکرانی سے بھی خود کسی کام کے لیے نہیں کہتا، بلکہ میں تو گھر میں کہتا ہوں اور وہ نوکرانی سے کہتی ہیں کیوں کہ نوکرانی براہِ راست انھیں کی محکوم ہے اس میں بھی ان کی حاکمیت کو محفوظ رکھتا ہوں۔ نیز اجنبی عورت سے بلا ضرورت خطاب بھی ایک درجہ میں خلافِ حیا ہے۔ملازمین کی سہولت وتوقیر کا لحاظ : فرمایا کہ نوکروں کو دو کام ساتھ نہیں بتاتا، پہلے ایک بتاتا ہوں، جب اس سے فراغت ہو جاتی ہے پھر دوسرا تاکہ یک دم بار نہ پڑے اور یاد رکھنے کی زحمت نہ ہو یا یاد رکھنے کی زحمت خود برداشت کرتا ہوں، ان پر بوجھ نہیں ڈالتا، اگر کوئی اُلجھن کا کام ہوتا ہے تو اس میں خود بھی شریک ہو جاتا ہوں تاکہ انھیں کچھ سہولت ہو جاوے۔