انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس طرح بواسطہ دینی ضرر کا بھی اکثر تحقق ہوہی جاتا ہے، کیوں کہ جو داعیہ عادیہ تھا، یعنی انشراح وہ تو جاتا رہا اور بلا داعیہ اکثر کو عمل بہت دشوار ہوتا ہے۔حکمِ بالا معتقد فیہ میں ہے : حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ گو میں خود کوئی چیز نہیں، لیکن جب کسی نے کسی شخص کو اپنا معتقدفیہ بنا لیا اور پھر بلاوجہ اس کے ساتھ خلافِ اعتقاد معاملہ کرکے اس کو مکدّر کر دیا تو اس صورت میں ویسی مضرتیں پہنچیں گی جیسی کاملین ومقبولین کو مکدّر کرنے سے پہنچتی ہیں۔عرفی اخلاق مانع خدماتِ دینیہ ہیں : حضرت والا نے اکثر فرمایا کہ اگر میرے یہاں عرفی اخلاق ہوتے تو اس قدر ہجوم ہوتا کہ جو کچھ میں نے دینی خدمت کی ہے اور کر رہا ہوں وہ ہرگز ممکن نہ ہوتی، نیز اس ہڑبونگ میں آنے والوں کو کوئی موقع ہی خاض نفع حاصل کرنے کا نہ مل سکتا، نیز مخلصین وغیر مخلصین میں بالکل امتیاز نہ رہتا۔ اب جتنے ہیں بفضلہ تعالیٰ وہ قابلِ اطمینان تو ہیں، کیوں کہ ایسا ویسا تو میرے یہاں ٹھہر ہی نہیں سکتا۔رخصت کے وقت حضرت والا کی بشاشت وسیاست : اکثر دیکھا گیا کہ حضرت والا رخصت کرتے وقت بہت بشاشت کے ساتھ پیش آتے ہیں، بجز ان مواقع کے جن میں سیاست کا مقتضا اس کے خلاف ہو، ایسے مواقع پر تو رخصت کے وقت بالقصد یاد دلاتے ہیں کہ دیکھو تم مجھ کو اپنی حرکتوں سے اذیت دے کر جارہے ہو، اس کو یاد رکھنا، تاکہ آیندہ کسی کو نہ ستاؤ۔ حضرتِ والا کو بارہا فرماتے ہوئے سنا کہ نیک کاموں میں دل کے چاہنے نہ چاہنے پر مدارِ کار نہ رکھنا چاہیے، ہمت اور اختیار سے کام لینا چاہیے۔سفر میں شیخ کی معیت : فرمایا کہ اگر موقع ملے تو طالب کو کبھی کبھی شیخ کے ساتھ سفر بھی کرنا چاہیے، کیوں کہ سفر میں زیادہ معیت رہتی ہے اور مختلف قسم کے سابقے پڑتے ہیں جس سے دل کھل جاتا ہے اور مل جاتا ہے اور باہم مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور مناسبت ہی پر فیض کا دارومدا رہے، نیز ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ معیت سفر اصلاح میں بہت معین ہوتی ہے، کیوں کہ سفر میں شیخ کو طالب کے مختلف قسم کے حالات ومعاملات کے مشاہدہ کا موقع ملتا ہے جن پر وہ روک ٹوک کر سکتا ہے۔ یہ موقع حضرت میں مستبعد ہے۔ اسی طرح سے طالب کو بھی شیخ کے بعض ایسے معاملات سے سبق حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جس کا اتفاق حضر میں نہیںہوتا۔ اگر ہجوم وساوس کی یا محض میلان الی المعاصی بلا عمل وعزم عمل کی شکایت کرتا ہے تو سب سے پہلے حضرت والا یہی ضابطہ کا سوال فرماتے ہیں کہ اس میں دینی ضرر کیا ہے۔