انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پس اگر ۲۸؍ شعبان کو زکوٰۃ کا سال پورا ہوتا ہو تو ۲۸؍ شعبان کو زکوٰۃ ادا نہ کرنا بلکہ رمضان کے لیے اس کو ملتوی کرنا عدمِ تفقہ اور مقصدِ شارع نہ سمجھنے کی دلیل ہے۔ ارے! تم کو کیا خبر ہے کہ مساکین پر کیا گذر رہی ہے تم کو یکم رمضان کا انتظار ہے اور اس غریب کی روح کو ایک ایک گھڑی کا انتظار ہے علاوہ اس کے انفاق فی رمضان میں کمیتاً ثواب بڑھتا ہے اور تعجیل وسبقت فی الخیر میں کیفتیاً ثواب زیادہ ہوتاہے اور کیفیت میں کمیت سے زیادہ مطلوبیت ہے۔ چناں چہ اس کی نظیر علما کے کلام میں بھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ حدیث میں جو ہے کہ محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے ۲۵ نمازوں کا ثواب ملتا ہے اور جامع مسجد میں ۵۰۰ نمازوں کا مگر محلہ والوں کو یہ جائز نہیں کہ محلہ کی مسجد چھوڑ چھوڑ کر جامع مسجد نماز پڑھنے جایا کریں، اگر ایسا کرو گے تو گناہ ہوگا اس کی وجہ یہی ہے کہ جامع مسجد کی نماز کاثواب اس شخص کے حق میں کمیتاً زیادہ ہے، مگر محلہ کی مسجد کا ثواب کیفیتاً زیادہ ہے۔ کیوں کہ اس کے ذمہ اسی مسجد کی آبادی واجب ہے تو یہ شخص مسجد میں نماز بھی پڑھتا ہے اور واجب عمارت کو بھی ادا کرتا ہے اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے سے واجب عمارت ادا نہ ہوگا، کیوں کہ اس کے ذمہ اس مسجد کی عمارت وآبادی واجب نہیں، بلکہ یہ واجب جامع مسجد کے محلہ والوں کے ذمہ ہے۔بحث تاخیرِ حسنات الیٰ رمضان کا تتمہ : ارشاد: اوپر جو بحث تاخیرِ حسنات الیٰ رمضان کی ہے اس کے تتمہ میں یہ بھی سمجھ لیجیے کہ کیا عجب ہے کہ اس وقت ضرورت کے وقت جو مسکین کو سہارا مل گیا ہے اس کی دعا عرش سے کتنی اوپر گئی ہوگی اور اس دعا سے تم کو کیا کچھ ملا ہوگا اور مان لو کہ اس وقت رمضان سے کم ہی ثواب ملا تو تم کو کیا خبر ہے کہ رمضان تک تم زندہ رہو یا نہ رہو اگر کہو کہ ہم وصیت کر جائیں گے کہ رمضان میں اتنی رقم دے دی جاوے تو وصیت کا ثواب اپنے ہاتھ سے دینے کے برابر نہیں۔ دوسرے کیا بھروسہ کہ ورثا ادا بھی کریں گے۔مجبور کے لیے ادائیگی حقوق کا طریقہ : ارشاد: اگر کوئی شخص عمر بھر اس فکر میں لگا رہے کہ میرے ذمہ جو حقوق دوسروں کے ہیں کسی طرح ادا ہو جائیں، مگر افلاس یا اور کسی عذر کی وجہ سے مجبور رہا تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہم خود حقوق ادا کردیں گے اور اس شخص پر اصلاً مواخذہ نہ ہوگا۔بچہ کے ہاتھ سے خرچ کراوے مگر خرچ کو اباحتاً دے : ارشاد: باپ کو مناسب ہے کہ بچہ کے ہاتھ سے بھی کبھی کبھی خرچ کرایا کرے، کبھی اس کے ہاتھ سے فقیر کو دلوا دیا، کبھی مدرسہ میں دلوا دیا، تاکہ اس کا حوصلہ بڑھے اور مال کی حرص نہ پیدا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب بچوں کے ہاتھ سے کسی دوسرے کو رقم دلواؤ، خواہ فقیر کو یا مدرسہ کو تو اس وقت یہ رقم بچہ کو ہبہ نہ کرو، بلکہ اباحت کے طور پر دو ورنہ وہ اس کی مِلک ہوجائے گی، پھر ہبہ صبی حرام ہوگا اور اگر غلطی سے ایسا ہو جاوے تو فقیر سے یا مدرسہ والوں سے یہ رقم واپس نہ لو، بلکہ خود بچہ کو اس کے عوض رقم دیدو۔ جس میں نیتِ عوض کی قید