انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بر صراطِ مستقیم اے دل کسے گمراہ نیستفنا اس طریق کا اوّل قدم ہے اور آخر قدم بھی : فنا کے متعلق حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اس طریق کا اوّل قدم ہے جیسا کہ ایک معنی کر آخر قدم بھی ہے، اگر کسی کو حاصل نہیں توسمجھ لو کہ اس کو اس طریق کی ہوا بھی نہیں لگی۔ حضرت والا کے یہاں اس صفت کے پیدا کرنے کا سب سے زیادہ اہتمام ہے۔حقوق العباد کی نگہداشت : حضرت والا کے یہاں حقوق العباد کی نگہداشت کی سخت تاکید ہے، بالخصوص وہ حقوق جن میں کوتاہی کرنے سے کسی کو اذیّت ہو۔ لہٰذا اس کا بہت خصوصیت کے ساتھ اہتمام رکھیں کہ اپنے کسی قول یا کسی فعل سے کسی کو کسی قسم کی ایذا نہ پہنچے۔طریقہ اصلاح عیوب : ہر طالب ِاصلاح کو اپنے عیوب کی اصلاح کرانے کے لیے حسب ذیل طریقۂ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ وہ حسبِ ارشاد حضرت والا یہ ہے کہ ایک کاغذ پر اپنی سب برائیاں لکھ لیں اور جو جو یاد آتی رہیں اس میں لکھتے رہیں اور ان کا علاج بھی استحضار اور استعمالِ اختیار وہمت سے کرتے رہیں اور علاج سے جو بالکل زائل ہو جائیں ان کا نام کاٹ دیں اور جو رہ جائیں پوری یا ادھوری اُن کو لکھا رہنے دیں، پھر حضرت والا کی خدمت میں اپنی اصلاح کے متعلق خط لکھنے بیٹھیں تو اُن بُرائیوں میں سے جو اپنے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہو پہلے اس کو لکھیں، اگر تعین میں تشویش ہو تو قرعہ ڈال لیں، جس عیب کا نام نکل آوے وہی لکھ دیں اور اگر اس کا کچھ علاج کیا ہو اس کی بھی اطلاع کردیں، ایک عیب سے زیادہ ایک بار نہ لکھیں اور اس کی چند مثالیں لکھیں اور جب تک اس عیب کے علاج میں رسوخ نہ ہو جاوے، برابر اسی کے متعلق خطوط بھیجتے رہیں اور جب رسوخ ہو جاوے اور حضرت والا بھی اس رسوخ کی تصدیق فرمادیں اور دوسرا عیب پیش کرنے کی اجازت عطا فرمادیں اس وقت دوسرا عیب پیش کریں۔ بس اسی طرح سارے عیوب کی اصلاح کرائیں۔حضرت ِوالا کا سلوک جو تتمّہ ہے نمبر ۲ کا : حضرت والا نے خود اپنے سلوک کی حقیقت نہایت واضح اور لطیف عنوان سے بیان فرمائی کہ یہاں تومّلاپن ہے، ہم نہیں جانتے کہ درویشی کیا چیز ہے؟ طالب علم ہیں صاضب علم بھی نہیں، بس قرآن وحدیث پر عمل کرنا بتلاتے ہیں، پھر اسی میں جو کچھ ملنا ہوتاہے مل جاتا ہے اور ایسا ملتا ہے کہ مالا عین رأت ولا أذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشر من أمثالھا یعنی ہم جیسوں میں سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی کے قلب میں اس کا خطرہ تک گذرا، مگر ظاہر میں نہ تو ہو حق ہے، نہ وجد وکیفیت ہے، نہ کشف وکرامت ہے، پھیکا پھاکا طرز ہے، جیسے سمندر کی مچھلی کہ خود اس کے اندر نمک ہوتا ہے اوپر سے نمک ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اسی کے اندرکا نمک پکنے کے بعد کھلتا ہے پس یہاں بھی اوپر کا نمک نہیں ہے مگر اندر ہے جوپکنے کے بعد کھلتا ہے، لہٰذا پکانا شرط ہے یعنی عمل میں