انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو بقصد سوچنا اور اس میں خوض وفکر کرنا، یا اس کا بکثرت تذکرہ کرنا، اس سے بھی قلب ایک معتد درجہ میں متاثر ہوکر مشوّش اور مضمحل ہو جاتا ہے، اس لیے اس کا انسداد بھی تدبیر نمبر سوم سے کرنا لازم ہے۔واقعہ حزن سے حزنِ طبعی ہونا : تحقیق: ایسے موقع پر حزن غیر اختیاری ہے جو مُضر بھی نہیں، لیکن اس کا بار بار یاد کرنا اختیاری ہے اور مُضر بھی ہے۔ چناں چہ اسی بنا پر {لَا تَحْزَنْ} [التوبۃ: ۴۰]، اور {لَا تَحْزَنِیْ} [القصص: ۷]، وارد ہے، کیوں کہ منہی عنہ ہونا دلیل ہے اختیاری ہونے کی اور جس طرح اس کا احداث یا ابقا اختیاری ہے، اسی طرح اس کا ازلہ بھی اختیاری ہے جس کا طریق تجربہ بہ تائید بالنص تدبیر نمبر سوم میں مذکور ہوا۔واقعہ غم کے تذکرہ کا اعتدال اور اس کی تائید بالنص : تحقیق: واقعہ غم کا بالکل تذکرہ نہ کرنا اور ضبط میں مبالغہ کرنا بھی تجربہ سے مُضر ثابت ہوا ہے کہ سب غبار اندر ہی اندر رہنے سے طبیعت گھُٹ جاتی ہے اور اس کی قوتِ تحمل گَھٹ جاتی ہے، اس لیے مصلحت یہ ہے کہ شروع شروع میں گاہ گاہ اپنے کسی دیندا ر ہمدرد سے اعتدال کے ساتھ حدودِ شرعیہ میں رہ کر اس واقعہ غم کا کسی قدر تذکرہ بھی کر لیا کرے۔ اس کی تائید بھی نص سے ہوتی ہے کہ حضرت اقدسﷺ اپنے فرزند حضرت ابراہیم کی وفات پر روئے بھی اور یہ بھی ارشاد فرمایا: إنا بفراقک یا إبرایہم! لمحزونون۔ہمدردی کی حدِ معتدل : تحقیق: زیادہ ہمدردی اور ترحّم سے بھی قلب کو تکلیف وتشویش ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات خلافِ تسلیم اور تفویض خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں جو سخت اندیشہ کی بات ہے، اس لیے دوسرے کے ساتھ اپنی ہمدردی کو بھی حد کے اندر رکھے اور وہ حد یہ ہے کہ دوسرے کو نفع تو پہنچ جائے لیکن اپنے کو ضرر نہ پہنچے۔ اس کے لیے بس عقلی ہمدردی کافی ہے اور طبعی ہمدردی کو صرف اسی حد تک رہنے دیا جاوے جس حد تک عقلی ہمدردی کے مؤثر ہونے کے لیے ضروری ہو۔وارداتِ قلب من جانب اللہ ہیں : تحقیق: حضرت مولانا گنگوہی ؒ نے میرے ایک عریضہ کے جواب میں فرمایا کہ جو کچھ قلب پر وارد ہو من جانب اللہ خیال کرو، جو واردات مُضر ہوں گے اس مراقبہ سے سب دفع ہوجائیں گے۔صاحبِ مقام کی حقیقت : تحقیق: فرمایا کہ صاحبِ مقام ہوجانے کے یہ معنی نہیں کہ سالک تغیراتِ احوال سے بالکل ہی خالی ہو جاتا ہے، کیوں کہ تغیراتِ عارضی تو بر بنائِ مصالح لوازمِ سلوک سے ہے جو رسوخِ کامل اور نمکین تام کے حصول کے بعد بھی سالکین کے احوال میں گاہ گاہ واقع ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان میں استبداد وامتداد واعتداد نہیں ہوتا، جیسے صحتِ کاملہ کے حاصل اور اعتدالِ مزاج قایم ہو جانے کے بعد بھی موسم کے بدلنے یا دیگر اسبابِ خارجی سے احیاناً کبھی زکام ہوجاتا ہے کبھی طبیعت کسل مند ہو جاتی ہے، کبھی بخار ہو جاتا ہے، مگر اس قسم کی عارضی شکایات صحتِ طبیہ