انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بطیبِ خاطر اختیار کریں، یہ خیال رکھیں کہ کہیں کوئی خار راہ ہمارے اس شاہراہ پر رونما نہ ہو۔خود داری کا علاج : ارشاد: اپنے عیوب اور اپنا ہیچ ہونا اور فنا ہوجانا سوچا کرے یہ ہے علاج خود داری کا۔ہر شے کے ’’واسطۂ وصول‘‘ ہوجانے کامراقبہ : ارشاد: اگر اس طرح مراقبہ کرو کہ یہ سارے حوادث (یعنی موجودات، زمین وآسمان، چاند وسورج، ستارے، پہاڑ وغیرہ) موصل الی المحدث (الخائق) اور یہ سارے مصنوعات مرأۃ جمالِ صانع ہیں تو اس حیثیت سے تمام عالم میں کوئی شے غیر نہیں، کیوں کہ ہر شے واسطۂ وصول ہے۔ قال الشیخ الشیرازي: برگ درختاں سبز در نظر ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفت کر دگارمراقبہ رویت اللہ کا نفع : ارشاد: جو شخص ہر وقت اس بات کوپیشِ نظر رکھے گا کہ حق تعالیٰ مجھ کو دیکھ رہے ہیں وہ تکبر نہ کرسکے گا نہ غصہ بے جا، نہ گناہِ صغیرہ نہ کبیرہ۔ایک وقت موت کے مراقبے کا رکھو : ارشاد: ایک وقت موت کے سوچنے، حالاتِ قبر کے سوچنے اور قیامت کے سوچنے کے لیے مقرر کرو، اور باقی اوقات میں ذکر اللہ میں مشغول رہو، اسی فکر کانام مراقبہ ہے۔مراقبۂ سفرِ آخرت برائے زوال رضا بالدنیا واطمینان بہا : ارشاد: خدا کا راستہ طویل ہے اور ہم اس پر چل رہے ہیں تو ہم ہر وقت سفر میں ہوئے۔ اے صاحب! جس کو ہر وقت سفر در پیش ہو۔ وہ کیوں کر مطمئن ہوکر بیٹھ سکتا ہے۔ اور جس کے سامنے اتنا لمبا سفر ہو وہ کیوں کر دل کھول کر ہنس سکتا ہے۔ اسی لیے حدیث میں رسول اللہﷺ کی سیرت اسی باب میں اس طرح بیان کی گئی ہے: کان دائم الفکرۃ متواصل الأحزان کہ آپ ہمیشہ فکر وسوچ اور رنج وغم میں رہتے تھے اور اسی فکر وغم کا یہ اثر تھا کہ آپ کبھی کھل کر ہنستے نہ تھے۔ چناںچہ حدیث میں ہے: جل ضحکہ التبسم۔ کہ آپ کا بڑا ہنسنا یہ ہوتا تھا کہ تبسم فرمالیتے تھے۔ (اور وہ بھی ہماری خاطر سے، تاکہ لوگوں کا کلیجہ پھٹ نہ جائے اور وہ یوں نہ کہیں کہ جب حضور ہر وقت غمگین رہتے ہیں تو ہمارا ٹھکانا ہے لوگ اس سے مایوس ہوجاتے) پس انسان کو چاہیے کہ یہ تصورپیشِ نظر رکھے کہ میں ہر وقت سفر میں ہوں، جس کے لوازم میں سے ہے بے چینی اور عدم اطمینان، کیوںکہ مسافر کو منزل پر پہنچنے سے پہلے اطمینان نہیں ہوا کرتا بلکہ مسافر کے لیے غیر منزل کے ساتھ اطمینان اور رضا موانعِ سفر سے ہے، جو مسافر غیرمنزل سے دل لگالے گا اور اسی میں قیام کرکے بے فکر ہوجائے گا یقینا منزل پر نہ پہنچ سکے گا۔