انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پیشِ نظر نہیں رہ جاتے۔ تہذیب: العلاج بالضد، ذہول کا علاج استحضار ہے۔ ایک پرچہ پر یہ قبائح لکھ کر اپنے پاس رکھو خواہ جیب میں یا بطور تعویذ کے بازو پر، غصہ کے وقت اس کا مضمون یاد آجانا یا یاد کرلینا آسان ہوگا۔غصہ میں بچوں پر زیادتی سے بچنے کا علمی وعملی علاج : تہذیب: غصہ میں بچوں کو ہرگز نہ مارا جائے بلکہ غصہ فرو ہونے کے بعد سوچ سمجھ کر سزا دی جائے اور بہتر سزا یہ ہے کہ بچوں کی چھٹی بند کردی جائے اس کا ان پر کافی اثر ہوتاہے، ملاجی مارنے میں اس واسطے آزاد ہیں کہ ان سے باز پُرس کرنے والا کوئی نہیں، بچے تو باز پُرس کے اہل نہیں اور والدین کا مقولہ ہے کہ ہڈی تو ہماری اور چمڑا میاں جی کا، مگر یاد رکھو! جس حق کا مطالبہ کرنے والا کوئی نہ ہو اس کا مطالبہ حق تعالیٰ کی طرف سے ہوگا، یہاں تک کہ اگر کافر ذمی پر کوئی حاکم ظلم کرے تو حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ اس کی طرف سے مطالبہ کریں گے۔حسد حسد کے تین درجہ اور ہر ایک درجہ کا حکم : تہذیب: ایک تو کیفیتِ انسانیہ ہے جس میں انسان معذور ہے، ایک عمل ہے مقتضا پر اس میں انسان مازور (گنہگار) ہے۔ ایک مخالفت ہے اُس مقتضا کی اس میں انسان ماجور ہے یعنی حسد کے غلبہ سے کسی کی مذمت کا تقاضہ ہو اس کی مدح کرو، اس سے اعراض کو دل چاہے اس سے ملو، اس کی تعظیم کرو، اس کو ابتداء بالسلام کرو، اس کے ساتھ احسان کرو۔حسد کے مقتضیات کے اضداد کو اختیار سے استعمال کرنا اس کا علاج ہے : تہذیب: العلاج بالضد اختیاری کی ضد بھی اختیاری ہے۔ پس جو امور حسد سے ناشی ہیں ان کی ضد کو اپنے اختیار سے عمل میں لاؤ، اس طرح کہ بجائے غیبت کے محسود کی مدح زبان سے کیا کرو، گو نفس کو ناگوار ہو مگر زبان پر تو اختیار ہے اور اس سے نیاز مندی کے ساتھ ملاقات وکلام کرو اور اس کے ضرر پر زبان سے رنج ظاہر کیا کرو، اس کے سامنے بھی اور دوسروں کے سامنے بھی اور وہ اگر سامنے آجائے تو اس کی تعظیم کیا کرو۔ کبھی کبھی اس کو ہدیہ دیا کرو۔ ایک مدت تک ایسا کرنے سے حسد زائل ہوجائے گا۔ کم از کم بیس بار اس معاملہ کو واضح کیا جائے۔حسد اور حقد کی شناخت اور اس کے مادہ کے اضمحلال کا طریقہ : تہذیب: اگرکسی کے نقصان کی خبر سننے سے دل خوش ہو تو یہ حسد کا مادہ ہے اور اگر اس شخص سے کوئی رنج پہنچا ہو تو حقد کا مادہ ہے، مگر مادہ پر مواخذہ نہیں، اگر اس کے مقتضا پر عمل کیا جائے تو مواخذہ ہے اور عمل اختیاری ہے اس سے بچنا اختیاری ہے، لیکن مادہ کو مضمحل کرنا ضروری ہے تاکہ بڑھ