انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی معلوم ہوگئی۔خشیتِ عقلی اور محبتِ عقلی کی تعریف : تہذیب: خشیتِ عقلی یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت کو متوجہ کرے اور منکرہ سے رکنے کی طرف، اسی طرح محبتِ عقلی یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت کو شریعت پر عمل کرنے کی طرف متوجہ کرے۔خشیت وفکر کی کمی کی علامت : تہذیب: آج کل عملی خرابی عام طور پر پھیلی ہوئی ہے کہ جو شخص عمل کے اعتبار سے جس حالت میں ہے وہ اس پر قناعت کیے ہوئے ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میرے اندر کوئی نقص نہیں، تغیر اور تبدل کی حاجت نہیں، یہ خشیت وفکر اور ذہن کی کمی ہے۔تقویٰ شرعی کی حد : تہذیب: تقویٰ شرعی وہ ہے کہ خوفِ خدا کے ساتھ عمل بھی ہو، اگر عمل نہ ہو محض خوف ہی ہو تو وہ تقویٰ شرعی نہ ہوگا۔خوف ورجائے عقلی کی حد : تہذیب: خوف ورجا ئے عقلی مامور بہ ہے ، خوفِ عقلی کا حاصل یہ ہے کہ احتمال کے درجہ میں یہ خیال ہو کہ شاید مجھے سزا ہواور رجائے عقلی یہ ہے کہ درجۂ احتمال میں یہ خیال ہو کہ شاید بدون سزا ہی کے مغفرت ہوجائے۔حبِّ عقلی اور خوفِ عقلی کاملین کو خدا تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ہوتا : تہذیب: خوفِ عقلی انبیا کو خدا کے سوا کسی سے نہیں ہوتا، کیوں کہ ان کا اعتقاد یہ ہے: {وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اﷲِط} [البقرۃ: ۱۰۲] کہ بدون خدا کے کوئی چیز ضرر نہیں دے سکتی۔ وہ ضار ونافع حق تعالیٰ کو سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کاملین کو حبِّ عقلی خدا کے سوا کسی سے نہیں ہوسکتی، کیوں کہ اس کا مبنی کمالات پر ہے اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی میں بھی بالذات کمالات نہیں، ہاں! حبِّ طبعی وخوفِ طبعی غیر خدا سے بھی ہوسکتاہے۔خوف ومحبت کا درجۂ مقصود اور اس کے تحصیل کا طریقہ : تہذیب: غلبۂ خوف اور محبت دونوں میں مقصود وہ درجہ ہے جس کے ساتھ دوسرے مصالح بھی فوت نہ ہوں اور یہ جب ہی ہوسکتاہے جب کہ ہر حال میں یکساں غلبہ نہ ہو بلکہ ایک وقت میں محض خوف اور محبت ہی کا غلبہ ہو اور کسی کام کی طرف التفات نہ ہو اور ایک وقت میں دوسرے کاموں کی طرف بھی التفات ہو مگر دل میں خوف ومحبت کی وجہ سے آرہ بھی چل رہا ہو، جیسے طاعون کے زمانہ میںموت کا غلبہ ہر وقت رہتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتاکہ کھانا پینا بھی چھوٹ جائے، اس حالت کی تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ موت کی یاد کثرت سے کرو، یعنی اس کو غالب رکھو۔ اور نماز ایسی پڑھو جیسے دنیا کو رخصت کرنے والا نمازپڑھتا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے: صَلِّ صَلٰوۃَ مُوَدَّعٍ۔