انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کچھ ہی ہوں وہ چوں کہ غیر اختیاری ہیں، ان کی کچھ پروا نہ کرنا چاہیے، آپ محروم نہیں۔ ایک وقت میں یہ امر تحقیقاً معلوم ہوجاوے گا، اب تقلیداً مان لیجیے۔ فرمایا کہ میری تمنائے دلی اپنے متعلقین کے لیے حالتِ قبض کے طاری ہونے کی بشرط البصیرت والاستقلال ہوا کرتی ہے اور اس کے منافع اس قدر ہیں کہ احصا میں نہیں آتے، جن سب کا خلاصہ فنائِ تام ہے اور اس کے بعد جو بسط ہوتا ہے، وہ بے نظیر ہوتا ہے۔حالتِ قبض کا دستور العمل : فرمایا کہ عینِ قبض کے وقت گو اس کے منافع معلوم نہ ہوں، مگر بعد میں اکثر معلوم بھی ہو جاتے ہیں اور اگر معلوم بھی نہ ہوں تب بھی حاصل تو ہوتے ہیں اور حصول ہی مقصود ہے نہ کہ اس حصول کا علم، ہرگز پریشان نہ ہوں، ذکر جس قدر ہوسکے کر لیا کریں، اگرچہ کسی قدر تکلیف کرنا پڑے اور اگرچہ اس میں دلچسپی بھی بھی نہ ہو اور جس میں زیادہ کلفت ہو تخفیف کر دیں اور استغفار کی قدرے کثرت رکھیں اور جب تک یہ حالت رہے، ہفتہ میں ایک دو بار اطلاع دیتے رہیں۔قبض پیش خیمہ عبدیت ہے : فرمایا کہ تغیراتِ احوال طبعی ونفسانی ہیں، نہ کہ روحانی وقلبی۔ سو ایسے تغیرات مضر تو کیا نافع ہوتے ہیں، عبدیت کی حقیقت کا اس میں مشاہدہ ہوتا ہے، فنا وتہیدستی رائے العین ہو جاتی ہے۔ اختیاری کام کی پابندی ایسے ہی وقت دیکھنے کے قابل اور محل امتحان ہے، اگر اس امتحان میں پاس ہوگیا، اعلیٰ درجہ کے نمبر کا مستحق ہوگا۔قبض کی ایک بڑی مصلحت : فرمایا کہ حالتِ قبض وہیبت میں سالک یہ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے کہ میرے لیے چاروں طرف سے راستے بند کر دیے گئے ہیں، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کی اس میں یہ مصلحت ہوتی ہے کہ سب طرف سے مایوس ہوکر میری طرف رجوع ہو اور اس سدِّباب سے مقصود اپنے سے محجوب کرنا نہیں ہوتا، بلکہ شیطان سے بچا کر خود اپنی پناہ میں لینا مقصود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سالک کو اس تنگی میں اس لیے مبتلا کرتے ہیں کہ مہلکاتِ باطنی عجب وکبر سے محفوظ رہے اور اگر اس کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کیا جاتا تو رذائلِ نفس کے پنجہ میں جا پھنستا ہلاک ہو جاتا۔ چناں چہ حضرت مولانا رومی ؒ اسی حالتِ قبض اور اس کے معالجہ میں فرماتے ہیں ؎ اے حریفانِ راہ ہارا بست یار آہوئے لنگیم واد شیرِ شکار