انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تحصیلِ صبر کا طریق : (ا) مصائب کا تحمل قلب پر بہت ہی گراں ہوتا ہے، بلکہ کوئی بات خلافِ طبع پیش آجائے اس سے قلب میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہو جاتا ہے اور قلب میں اس کی وجہ سے طرح طرح کے وساوس پیدا ہوتے ہیں۔ اُمید ہے کہ حضرتِ اقدس اس کے لیے علاج مرحمت فرمائیں گے۔ تحریر فرمایا: نہ سبب مذموم ہے نہ مسبّب، دونوں غیر اختیاری ہیں ولا عزم مالا اختیار فیہ۔ اس لیے ضرورت معالجہ کی نہیں، البتہ حدود شرعیہ سے بالاختیار تجاوز کرنا یہ مذموم ہے اور بے صبری اسی کا نام ہے۔ (ب) صبر کی حقیقت شرعیہ سے بھی مطلع فرمائیں گے۔ تحریر فرمایا: حبس النفس علی ما تکرہ عمّا یکرہ شرعًا یعنی نفس کی ناگوار باتوں کو تحمل کرنا: اس طرح کہ حدود شرعیہ سے تجاوز نہ ہونے پاوے، یعنی جزع فزع اور خلافِ شرع اقوال سے بچنا۔ (ج) بے چینی اور طبعی اضطراب گو شرعًا مذموم نہیں مگر نفس کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ تحریر فرمایا کہ اس تکلیف کا معالجہ فن کی غرض سے خارج ہے۔ (د) بسا اوقات اس کی وجہ سے دینی اُمور فرائض وواجبات میں خلل واقع ہونے لگتا ہے۔ فرمایا: خلل غیر اختیاری یا اختیاری۔ (س) جو مصیبت قلب پر عادتًا شاق ہوتی ہے جیسے والدین، اولاد کا انتقال، اگر کسی کو بوجہ قساوت کے ایسے مصائب پر کچھ گرانی قلب پر نہ ہو، تو ایسی صورت میں نہ اس کو تکلیف ہوگی اور نہ صبر اور نہ اس پر ثواب۔ ایسی صورت میں تحصیلِ ثواب کی کیا صورت ہے یا وہ شخص اس مصیبت پر صبر کے ثواب سے محروم رہے گا؟ تحریر فرمایا کہ یہ عزم رکھنا کہ اگر مصیبت پر قلق ہو تو صبر کروں گا۔ یہ بھی تحصیلِ ثواب صبر کے لیے کافی ہے۔ (ص) مصائب کے وقت حقوقِ شرعیہ میں خلل کبھی تو اختیاری ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اس کا تدارک تو اختیاری ہے۔ تدارک کرنا چاہیے۔ (ط) کبھی غیر اختیاری کہ قلب ایسی پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ذہول اور غفلت کی وجہ سے دوسری طرف توجہ نہیں ہوتی۔ فرمایا: تو اس سے کوئی ضرر دینی نہیں اور مہّم بالشان ایسے ہی ضرر سے بچنا ہے۔میرے نزدیک قسات کی تفسیر یہ ہے کہ : (ا) طاعت کی طرف طبیعت کی رغبت نہیں۔ تحریرفرمایا: طبعی یا قصدی استحضار سے۔