انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اعمالِ باطنہ سالک کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں۔ حضرت والا اب تک بھی ہر وقت اپنے نفس کی نگرانی اور دیکھ بھال ہی رکھتے ہیں اور بوجہ دائمی مجاہدہ نفس دائمی ترقی فرمارہے ہیں اور یہ وہ ترقی ہے جو ہر وقت ہو رہی ہے اور جس کا کسی کو عام طور سے پتہ بھی نہیں چلتا اور یہی وہ اعمالِ باطنہ ہیں جن کے بارے میں حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ وہ سالک کو کہیں سے کہیں پہنچادیتے ہیں اور دوسروں کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کو قلندر کہتے ہیں۔ اس کو عباداتِ نافلہ کا اتنا اہتمام نہیں ہوتا جتنا اپنے قلب کی نگہداشت کا اور اعمال قلبیہ کا مثلاً: جب کوئی واقعہ پیش آیا تو فوراً اس کے قلب نے اس واقعہ کے متعلق حق تعالیٰ کے ساتھ کوئی معاملہ صبر وشکر تفویض عبدیت وغیرہ کا کیا، پس وہ ایک مستقل باطنی عمل ہوگیا اور اس درجہ کا ہوا کہ اس کی بدولت کہیں کا کہیں پہنچ گیا اور چوں کہ حوادث بکثرت پیش آتے ہی رہتے ہیں اور وہ ہر وقت اپنے قلب کی نگہداشت میں رہتا ہے اور اس شخص سے بڑھ جاتا ہے جس کو عبادات نافلہ کا اہتمام تو بہت ہے، لیکن قلب کی نگہداشت کا اہتمام نہیں بمصداق ارشاد حضرت مولانارومی ؒ: سیر عابد ہر شبے یک روزہ راہ سیر عارف ہر دمے تاتختِ شاہمعیار ِ درویش : فرمایا کہ ایک شیخ کا قول ہے کہ جو درویش اپنی باطنی زیادتی کمی کو ہر دم نہ محسوس کرتا رہے وہ درویش نہیں۔دوامِ اطاعت اور کثرتِ ذکر کی عادت : حضرت شیخ اکبر ؒ فرماتے ہیں کہ جب شیخ ہر روز اپنے حالات کی نگرانی اس طریق سے نہ کرے جس سے اس کو یہ تمکین (یعنی دوام اطاعت اور کثرت ذکر کی عادت) حاصل ہوئی تو (عجب نہیں) کہ وہ دھوکہ میں پڑجاوے اور آہستہ آہستہ طبیعت اور عادتِ قدیمہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے اور پھر وہ خلوت میں بھی رہنا چاہے تو اُنس حاصل نہ ہو، بلکہ خلوت سے وحشت ہونے لگے اور یہی حال ہے ان تمام حالات وکیفیات کا جو نفس کی طبیعت وجبلّت کے موافق ہیں کہ ان حالات کے حصول پر اعتماد نہ کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ بہت سریع الزّوال ہوتے ہیں اور ہم نے بہت سے مشائخ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے درجہ سے گر گئے، اللہ تعالیٰ ہمیں اور ان کو عافیت عطا فرمائے(آمین) حق تعالیٰ نے فرمایا ہے {اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا لاO اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًالاO وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًالاO} [المعارج: ۱۹-۲۱] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیا ہے کہ جتنے فضائل نفس کو حاصل ہیں وہ اس کے جبلّی اور طبعی نہیں، اس لیے انکا تحفظ