انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زوائدِ تصوف کی طرف التفات نہ ہو : ایک سالک نے ذکر کا اثر وتصوّرِ شیخ کے عدمِ استقلال کی شکایت لکھی تھی۔ تحریر فرمایا کہ ان چیزوں کو مقصود سے وہ نسبت ہے جیسے باغ کی گھاس پھولوں سے کہ اگر بالکل بھی نہ ہو تو باغ کی روح میں کوئی کمی نہیں، بلکہ بعض اوقات جب بڑھ جاتی ہے تو کاٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کام میں لگے رہیے اور ان زوائد کی طرف اصلاً التفات نہ کیجیے۔ارادۂ غیبت کے وقت کفِّ لسان مطلقًا احسن ہے : ایک سالک نے لکھا کہ اب کسی مجلس میں کسی کی نسبت کوئی ایسی بات کہنے کا ارادہ پیدا ہوتا ہے جو غیبت میں داخل ہوسکتی ہے تو فورًا یہ تصور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس سے معاف کرانا پڑے گا یہ تصور اتے ہی زبان رک جاتی ہے، بسا اوقات بولنا شروع کرتا ہوں، ساتھ ہی وہ تصور بھی پیدا ہوجاتا ہے اور بجائے اس بات کے کوئی دوسری بات کہہ دیتا ہوں۔ فرمایا کہ عمل حسن ہے اور اس سے احسن یہ ہے کہ دوسری بات بھی نہ کہی جاوے بلکہ خاموش ہو جاویں اس میں نفس کا زجر بھی زیادہ ہے نیز دوسروں کے لیے تنبیہ ہے کہ جب کلام کا نافناتب ہونا مستضر ہوجاوے اس طرح سے رک جانا چاہیے، دوسری بات کی طرف منتقل ہونے میں یہ تنبیہ نہیں جو نفح مقدی ہے۔غائبین کی غیبت کا تدارس : ایک سالک نے دریافت کیا جن لوگوں کی غیبتیں پہلے ہو چکی ہیں اور ان میں سے بہتوں کے متعلق اب یاد بھی نہ ہوگا اور بہت سے لوگ دوسری جگہ کے ہوں گے یا ان کی وفات ہو چکی ہوگی اس کے متعلق کیا کروں؟ فرمایا: اپنے ساتھ ان کے لیے استغفار ایک حدیث میں وارد ہے غالباً ابو داؤد کی روایت ہے۔ فرمایا کہ سالک کو ہمت سے کام لینا چاہیے نرے ندم وتمنّی سے کچھ نہیں ہوتا۔یکسوئی کی تحصیل میں دو غلطی : ایک سالک نے لکھا کہ میں تمنا کرتا ہوں کہ یکسوئی و دل جمعی کے ساتھ نماز پڑھنے کی توفیق ہوجاوے۔ تحریر فرمایا کہ گو حضور اختیاری نہیں لیکن احضار اختیاری ہے، جس قدر وسع میں ہو، خواہ اس پر حضور مرتب ہو یا نہ ہو۔ اس میں دو غلطیاں ہوتی ہیں: ایک احضار کا قصد نہ کرنا دوسرے حضور کا قصد کرنا۔عارف کبھی دعا کی اجابت سے نا اُمید نہیں ہوتا : حضراتِ صوفیہ کا یہ خاص مذاق ہے کہ وہ دعا کی اجابت سے کبھی نا اُمید نہیں ہوتے۔ بعض اہل اللہ بعض اُمور کے لیے تیئس سال تک برابر دعا کرتے رہے، ۲۳ سال کے بعد اجابت کا ظہور ہوا، ان کو اجابتِ دعا کا یقین تھا، اس لیے برابر دعا میں لگے رہے، مگر عام لوگوں کی عادت یہ ہے کہ چند روز دعا کرکے جب قبول کے آثار نہیں دیکھتے گھبرا کر دعا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں سمجھ لیتے ہیں کہ ہم قبول دعا کے اہل نہیں مسلمانوں نے جہاں اپنی کامیابی کے دوسرے طریقوں سے تغافل برتا ہے، افسوس ہے کہ وہ دعا جیسی سہل چیز سے بھی تغافل برت رہے ہیں۔اگر کم از کم ہر مسلمان عز ّت اسلام ومسلمین وغلبۂ اسلام کے لیے دعا ہی کرتا رہے اور برابر اس میں لگا رہے تو ان شاء