انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مشبہ سے واضح کیا جائے، ثابت نہ کیا جائے بلکہ مشبہ ثابت بدلیل آخر ہے اور یہ نہ مجاز میں داخل ہے خواہ مجازِ مرسل ہو خواہ استعارہ، کیوں کہ مجاز میں موضوع لہ کے مراد نہ ہونے پر قرینہ ہوتا ہے اس لیے غیر موضوع لہ مراد ہوتا ہے اور یہاں نہ موضوع لہ کے غیر ہونے کا کوئی قرینہ ہے، نہ غیر موضوع لہ مراد ہے اور نہ یہ کنایہ میں داخل ہے کیوںکہ کنایہ میں معنیٰ موضوع لہ متروک نہیں ہوتے بلکہ کلام کا مدلول اصلی وہی موضوع لہ ہوتا ہے مگر مقصود اس کا لازم یا ملزوم ہوتا ہے، جیسے طویل النجاد کہ اس میں مدلولِ وضعی متروک نہیں، مدلولِ کلام وہی ہے مگر مقصود طویل القمۃ ہے، کیوں کہ طویل النجاد کے لیے طویل القامۃ لازم ہے اور اعتبار میں وہ معنی نہ مقصود ہے، نہ مدلولِ کلام ہے، پس یہ اعتبار گویا قیاسِ تصرفی ہے اور مشابہ ہے قیاسِ فقہی کے، مگر عین قیاسِ فقہی نہیں۔ کیوں کہ قیاسِ فقہی میں علّتِ جامعہ مؤثر ہے حکم مقیس میں اس لیے وہ حکم منسوب الی القیاس ہوتا ہے، یہاں یہ بھی نہیں صرف مقیس مقیس میں تشابہ ہے اور اس مشابہت کو حکم میں کوئی اثر نہیں بلکہ وہ حکم خود مستقل دلیل سے ثابت ہے، یہ حقیقت ہے علم اعتبار کی۔ بس صُوفیہ تو اس کے حدود سے نہیں نکلتے کیوں کہ وہ معافی منقولہ کے نہ مدلولیت کے منکر ہیں، نہ مقصودیت کے اور جہلا صوفیہ خودان کے مدلولیت کے منکر ہیں اور جدید تعلیم یافتہ مدلولیت کے تو منکر نہیں مگر مقصودیت کے منکر ہیں۔ بلکہ مقصود معانی سیاسیہ ہی کو سمجھتے ہیں، ان سب فِرقوں کے فَرقوں کو خوب سمجھ لو۔سیر الی اللہ وسیر فی اللہ کے معنی : ارشاد: تعلق مع اللہ کے دو درجے ہیں: ایک سیر الی اللہ، یہ تو محدود ہے، ایک سیر فی اللہ، یہ غیر محدود ہے۔ سیر الی اللہ یہ ہے کہ نفس کے امراض کا علاج شروع کیا، یہاں تک کہ امراض سے شفا ہوگئی اور ذکر وشغل سے تعمیر شروع کی۔ یہاں تک کہ وہ انوارِ ذکر سے معمور ہوگیا یعنی تخلیہ وتحلیہ کے قواعد جان گئے، موانع مرتفع کر دیے، معالجہ امراض سے واقف ہوگئے، نفس کی اصلاح ہوگئی، اخلاقِ رذیلہ زائل ہوگئے اور اخلاقِ حمیدہ سے، انوار ِ ذکر سے قلب آراستہ ہوگیا۔ اعمالِ صالحہ کی رغبت طبیعت ثانیہ بن گئی، اعمال وعبادات میں سہولت ہوگئی، نسبت وتعلق مع اللہ حاصل ہوگیا تو سیر الی اللہ ختم ہوگئی اس کے بعد فی اللہ شروع ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کا حسبِ استعداد انکشاف ہونے لگا تعلق سابق میں ترقی ہوئی۔ اسرار وحالات کے ورود ہونے لگے ، یہ غیر محدود ہے، وہ تعلق ہے جس کی نسبت کہا گیا ہے ؎ بحرِ لبست بحرِ عشق کہ ہیچش کنارہ نیست