انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خوشی محض اس لیے ہوتی ہے کہ ان کا نفس یوں ہی چاہتا ہے، ورنہ ان کو کیا خبر کہ بڑے ہوکر باعثِ راحت والدین ہوگا یا وبالِ جان ہوگا، والدین کو آخرت میں کچھ نفع دے گا یا خود ہی سہارے کا محتاج ہوگا، بچپن میں مرنے والے بچے بہت زیادہ کار آمد ہیں۔ ان میں یہ احتمال ہی نہیں کہ دیکھیے آخرت میں یہ خود کس حال میں ہو، کیوں کہ غیر مکلف تو یقینا مغفور لہ ہے، وہ آخرت میں والدین کے بہت کام آوے گا۔ اپنے والدین کی بخشایش اور دخول جنت کے لیے حق تعالیٰ سے جھگڑے گا۔ جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے۔ چناںچہ حکم ہوگا: یا أیہا الطفل المراغم ربہ أدخل أبویک الجنۃ۔ پس اولاد اللہ کی امانت ہے، اس کو جب وہ لینا چاہیں خوش ہوکر خدا کے حوالہ کردو۔ ان کو اپنی چیز نہ سمجھو، پریشانی کی بنا یہی ہے کہ تم ان کو اپنی چیز سمجھتے ہو اور سمجھ کر ان کے متعلق تجویزیں کرتے ہو۔فراق اختیاری کے آثار کا حکم : حال: حضرت والا! یہاں آکر ایک نفع تو محسوس ہوا کہ ظاہری فراق نے دل کو تڑپادیا۔ اب میں ہوں اور حضرت کی یاد، اور حضرت کی ہر ہر چیز کی محبت ہر وابستہ کی محبت وعظمت یہ سوچ کر کہ ان کی آنکھیں حضرت کے دیدار سے مشرف ہیں ہر وابستہ درگاہ کو اپنے سے ہزار درجہ اچھا سمجھتا ہوں، اور سب کی محبت دل میں پاتاہوں۔تحقیق : یہ تو مجھ کو بھی نصیب نہیں نہ جی چاہتاہے، کیوںکہ اس صورت میں مختار نہ رہوں گا مضطر ہوجاؤں گا۔علومِ مکاشفہ کا درجہ : تحقیق: علومِ مکاشفہ سب ایسے ہی ہیں جو قرب میں دخیل نہیں، مثلاً: وحدۃ الوجود یا تجددِ امثال کہ ان کو قرب کے اندر کچھ دخل نہیں، گو ان کے اثر سے کسی ایسے عمل کی نوبت آجائے کہ جس کو قرب میں دخل ہو، جیسے وحدۃ الوجود کے غلبہ سے انقطاع عن الخلق میں قوت ہوجائے مگر فی نفسہٖ خود ان کو قرب میں دخل نہیں۔ کرامت کا رتبہ: تحقیق: کرامت کا مرتبہ ذکرِ لسانی سے بھی گھٹا ہوا ہے اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ ذکر سے کچھ تو قرب ہوتاہے اگر توجہ سے بھی نہ ہو، اور کرامت سے کچھ قرب نہیں ہوتا بلکہ خود وہ قرب سے ناشی ہے قرب اس سے ناشی نہیں۔ تو غایت مافی الباب وہ قرب کی علامت ہے بشرطیکہ وہ کرامت بھی ہو۔مجاہدہ ثانیہ کے آثار : حال: معصیتوںکا تقاضابالکل پہلاجیسا ہونے لگا، حیران ہوں کہ عرصہ کا نفس مضمحل شدہ پھر دوبارہ اسی شدت وجوش وہیجان کے ساتھ تقاضا کرنے لگا۔تحقیق : اکثر اہلِ طریق کویہی حالت پیش آتی ہے، کچھ گھبرانے کی بات نہیں، اس وقت نفس کا جو مقابلہ کیا جاتاہے وہ مجاہدہ ثانیہ کہلاتاہے اور اس مجاہدہ کا اثر ان شاء اللہ راسخ ہوگا، اور شاذ ونادر کسی امر طبعی کا تقاضا یہ منافی رسوخ کے نہیں۔ اس تغیر وتبدل کی مثال حسیات میں ایسی ہے جیسے شب کے آخر میں تاریکی کے بعد ایک نور ہوتاہے جس کو صبح کاذب کہتے