انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوگئی ہے اس لیے تم کو ذکر اللہ دنیا کی یاد سے اور اس کے دھیان سے مانع نہیں ہوتا اور اہل اللہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیوستہ ہوگئی ہے، ان کو کوئی چیز اور کوئی کام ذکر اللہ سے مانع نہیں ہوتا۔ یہ تو ذکر کی حالت ہے کہ توجہ الی الخلق میں بھی وہ ذاکر ہوتے ہیں، اور طاعت کی حالت یہ ہے کہ وہ ہر کام میں احکام شریعت کی رعایت کرتے ہیں۔ چناںچہ تبلیغ میں بھی جس میں ظاہراً تعلق مع الخلق ہے، اس کی رعایت کرتے جس سے وہ تعلق مع الحق ہوجاتاہے، چناںچہ تبلیغ میں وہ نرمی کرتے ہیں اور درشتی نہیں کرتے، مگر اسی وقت جب تک محبوب کی شان میں کوئی گستاخی نہ کرے۔خلوت وجلوتِ مفیدہ کی شناخت : ارشاد: إني لأجہز جیشي وأنا في الصلاۃ منافی خشوع وخلوت نہ تھا۔ اور اس کا راز کیا ہے اگر صورتاً خلوت ہو مگر قلب تعلقات میں گرفتار ہو تو اس خلوت کا کچھ فائدہ نہیں۔ اور اگر مال وزر اور کھیتی وتجارت میں بھی دل خدا تعالیٰ کے ساتھ لگا ہوا ہو تو تم جلوت میں خلوت نشین ہو: گر باہمہ چو با منی بے ہمہ در بے ہمہ چو بے معنی باہمہ پس کم از کم خلوت میں تو ایسی توجہ ہونا چاہیے کہ اس وقت دل خیالاتِ غیر سے پاک ہو ورنہ وہ خلوت خلوت نہ ہوگی بلکہ جلوت ہوگی، البتہ اگر ایسا خیال ہو جس کی اجازت محبوب کی طرف سے ہو یعنی دین کا خیال ہو اور ضرورت کا ہو تو وہ خلوت کے منافی نہیں۔ اس خیال کی نظیر وہ ہے جس کو حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ إني لأجہز جیشي وأنا في الصلاۃ کہ میں نماز میں لشکر کشی کا انتظام کرتاہوں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ یہ بھی دین کاکام تھا اور ضروری تھا اور ذکر اللّٰہ وما وإلاہ میں داخل تھا اور کثرتِ مشاغل کی وجہ سے خارجِ نماز اوقات بعض دفعہ اس کے لیے کافی نہ ہوتے تھے، اور نماز میں یکسوئی ہوتی ہے اور تدبیر وانتظام کاکام محتاجِ یکسوئی تھا اس لیے حضرت عمر ؓ نماز میں بضرورت باذن حق یہ کام کرلیتے تھے اور س لیے منافی خلوت وخشوع نہ تھا۔نفع متعدی کی شرط استعدادِ سیاست وتدبیر بھی ہے : ارشاد: نفعِ متعدی کی اجازت شیخ اس وقت دیتاہے کہ جب سیاست وتدبیر کا ملکہ بھی مرید میں دیکھ لیتا ہے، کیوں کہ امر بالمعروف کے کچھ آداب ہیں جن کے قابل ہر ایک نہیں ہوتا اور جن کے بغیر امر بالمعروف بجائے مفید ہونے کے موجبِ فتنہ وفساد ہوجاتاہے۔تعلق مع اللہ اصل مقصود ہے اور مرجوعینِ خلائق کے لیے دستور العمل : ارشاد: تعلق مع اللہ اصل مقصود ہے