انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ف: ترجمہ کے درمیان توضیحات سے تین شبہے رفع ہوگئے۔ ایک یہ کہ کیا دوسرے حضراتِ صحابہؓ میں یہ صفت حق گوئی کی نہ تھی۔ دوسرا شبہ یہ کہ کیا حضرت عمرؓ کا کوئی دوست نہ تھا، تیسرا شبہ یہ کہ کیا اس مجمع خیر میں حق بات کے تلخ سمجھنے والے موجود تھے۔ اول شبہ کا جواب یہ ہے کہ اصل صفت سب صحابہؓ میں مشترک تھی، لیکن یہ اختصاصِ غلبہ کے ایک خاص درجہ کے اعتبار سے ہے اور یہی توجیہہ ہے خاص خاص حضرات کے لیے خاص خاص فضائل کا حکم فرمانے کی۔ اور اس غلبہ کا مصداق یہ ہے کہ حق کے درجات متفاوت ہوتے ہیں۔ ایک درجہ یہ ہے کہ اس کا اظہار واجب ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اولیٰ یا مباح ہوتا ہے۔ سو پہلا درجہ تو سب صحابہؓ میں بلکہ سب اہلِ حق میں مشترک ہے اور دوسرے درجہ کے اعتبار سے بزرگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں، بعض مروّت یا تسامح کو مصلحت پر ترجیح دے کر سکوت فرماتے ہیں، بعض مصلحت کو مروّت پر ترجیح دے کر کہہ ڈالتے ہیں، پہلا درجہ نفس انصاف کا ہے اور دوسرا درجہ غلبہ کا ہے۔ دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ دوستوں کے ایک خاص درجہ کی نفی مقصود ہے، یعنی اگر حضرت عمرؓ مروّت کو مصلحت پر غالب رکھ کر طرح دے جاتے تو اس حالت میں ان کے جیسے دوست ہوتے، ویسے اب نہیں رہتے۔ تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ طبعی تلخی وناگواری اور اس کے مقتضا پر عمل نہ ہونا، یہ خیریت کے منافی نہیں۔ باقی ایسے لوگ بھی ہر زمانہ میں ہوتے ہیں جن کو عقلی تلخی بھی ہوتی ہے، اگرچہ اس وقت ایسے اقل قلیل تھے۔ کوئی حدیث کی کتاب دیکھیے، اس میں جہاں اور ابواب ہیں وہاں کتاب الحدود کتاب القصاص کتاب التعزیرات بھی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی حضورﷺ کے اخلاق ہیں کہ ضرورت کے مواقع پر سیاست کا استعمال اور جرائم کے ارتکاب پر سزاؤں کی تنفیذ کی جاوے۔اپنے نفس کے ساتھ سوئِ ظن رکھنا : حضرت خواجہ صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت والا اپنے نفس کے ساتھ ہمیشہ سوئِ ظن رکھتے ہیں اور گو مواقعِ ضرورت ومصلحت میں سیاست کا استعمال فرماتے ہیں، لیکن ہر واقعہ کے بعد بار بار اظہارِ افسوس وندامت بھی حالاً وقالاً وعملاً فرماتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مرتبہ تو اسی رنج وافسوس میں رات رات بھر نیند نہیں آئی اور بعض مواقع پر حضرات والا کو معافی مانگتے ہوئے اور بعض صورتوں میں مالی تدارک فرماتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور یہ تو ہمیشہ دیکھا، بلکہ اس کا خود بھی ذاتی تجربہ کیا کہ حضرات والا کی خفگی مفتاحِ عنایات وتوجہات ودعواتِ خاصہ زائدہ ہو جاتی ہے اور اسی سوئِ ظن بنفسہٖ کی وجہ سے حضرت والا نے معترضین کے مقابلہ میں کبھی رد کی کوشش نہیں فرمائی، بلکہ ان کے اعتراضوں پر بھی بالخصوص جہاں مظنہ نیک نیتی کا تھا اس نیت سے نظرِ ثانی فرمائی کہ اگر ان اعتراضات