انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی تو نہایت ابتہال کے ساتھ اس لذّت سے پناہ مانگی: ایک یہ کہ شوب ِ لذّت سے شبہ ہوتا ہے اخلاص کی کمی کا کہ حظِ نفس کے واسطے تفویض کو اختیار کیا، حق تعالیٰ کا حق سمجھ کر اختیار نہیں کیا۔ دوسرے جہاں دینی ودُنیوی کامیابی وناکامی کے متعلق حدیثوں میں تصریح ہے کہ اول میں اجرنا تمام اور ثانی میں اجرتام عطا ہوتا ہے، اسی طرح تفویض میں راحتِ طبعیہ ہونے سے اجر غیر کامل اور راحت نہ ہونے سے اجر کامل ملتا ہے اور اجرِ آخرت ہی مقصود ہے، پس ان دو رازوں کی وجہ سے عارفین نے لذت سے پناہ مانگی ہے، لیکن ہم ضعفا کے لیے اتنی ترمیم ہے کہ ہم کو پناہ مانگنا بھی مناسب نہیں، بلکہ تفویض کے ساتھ اس میں لذت وراحت کی بھی دعا مانگے اور جب تک عطا نہ ہو اس عطا نہ ہونے کی حقیقت پر صبر اور اس عطا نہ ہونے کے ثمرہ پر کہ کمالِ اجر وتشبیہ بالقبولین ہے، شکر کیا جاوے اور اسی کو وظیفۂ دائمہ بنائے۔بنا قبولِ ہدیہ : حضرتِ والا بدونِ تعارف ہدیہ قبول نہیں فرماتے، لیکن تیقنِ اخلاص کے وقت عدمِ تعارف مانع نہیں ہوتا اور اس تیقن کا ادراک وجدان غیر مشوب بالغرض سے ہوتا ہے، البتہ عدمِ تیقن، یعنی تردّد کے وقت عدمِ تعارف مانعِ قبول ہوتا ہے۔سیاست کے باب میں علم وعمل کی تحقیق : کے بارے میں فرمایا کہ جو چیز فرضِ عین نہ ہو اس کے درپے ہونا ہی کیا ضرور۔ناکامیوں پر عدمِ سکون کا علاج : تدبیر توازالۂ مذموم کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ازالۂ محمود کے لیے، اگر نصوص میں اور اقوالِ اہلِ خصوص میں غور کیا جاوے تو معلوم ہو جاوے کہ دنیا کی ناکامیابی خود شعار ہے مقبولین کا اور تواترِ کامیابی خصوصاً معاصی کے ساتھ شعار ہے مخدولین کا۔ سورۂ بقرہ کی آیت: {اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ} [الآیۃ: ۲۴۵] اور سورۂ احزاب کی آیت: {اِذْ جَآئُوْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ} [الآیۃ: ۱۰] کامیابی دُنیوی سے مقبولیت پر استدلال کا کفار کا طریقہ ہونا سورۂ فجر میں منصوص ہے: {فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ رَبُّہٗ} [الآیۃ: ۱۵]، مولانا رومی کا ارشاد ہے ؎ زاں بلاہا کہ انبیاء برداشتند سر بہ چرخِ ہفتمیں افراشتند گر مرادت را مذاقِ شکر است