انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسی وقت اس کو ان علوم میں کمال کا درجہ حاصل ہوگیا ہے، بلکہ محض اس ظنِ غالب پر سند دی جاتی ہے کہ اس کو ان علوم سے ایسی مناسبت پیدا ہوگئی ہے کہ اگر وہ برابر درس ومطالعہ میں مشغول رہے تو قوی امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کو کمال کا درجہ بھی حاصل ہوجائے گا۔ پھر اگر وہ اپنی غفلت وناقدری سے خود ہی اپنی اس مناسبت اور استعداد کو ضائع کردے، تو اس کا الزام سند دینے والوں پر ہر گز نہیں بلکہ خود اسی پر ہے۔ اسی طرح جو کسی کو اجازت دی جاتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فی الحال ہی اس کو ان اوصاف میں کمال کا درجہ حاصل ہوگیا ہے، بلکہ محض اس ظن غالب پر اجازت دی جاتی ہے کہ اس کو فی الحال تو ان اوصاف میں درجہ ضروریہ حاصل ہوگیا ہے اور اگر وہ برابر ان کی تکمیل کی فکر اور کوشش میں رہا تو قوی امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کو آیندہ ان اوصاف میں کمال کا درجہ بھی حاصل ہوجائے گا۔حضرت والا کی اجازت کاطریقہ : حضرت والا کیف ما اتفق کسی کو مجاز نہیں بناتے، بلکہ جب کسی کے متعلق قرائنِ حالیہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے تو پھر اس کے حالات کا خاص طور سے بغور تتبّع فرمانے لگتے ہیں، بلکہ اس تتبّعِ حالات کے لیے بعض کانام بھی پہلے سے بطور یاد داشت کے لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور جب اُس کی اہلیت کے متعلق اپنا ظاہری اطمینان اور باطنی شرح صدر بھی ہوجاتاہے اس وقت اجازت عطا فرماتے ہیں۔بعد اجازت بھی شیخ سے استغنا نہ چاہیے : فرمایا کہ شیخ کے ہوتے ہوئے اس سے استغنا بعد تکمیل بھی نہ چاہیے، کیوں کہ گو مجاز ہوجانے کے بعد شیخ سے سلسلۂ استفادہ جاری رکھنا درجہ ضرورت میں نہ رہے، لیکن ترقیات کے لیے تو پھر بھی اس کی حاجت رہتی ہے بلکہ اکثر احوال میں یہ افادہ درجۂ ضرورت میں بھی نہیں رہتا، لہٰذا شیخِ حق سے استغنا کسی حال میں نہیں چاہیے اور جنھوں نے اپنے کو مستقل سمجھ لیا انکی حالت ہی متغیر ہوگئی۔امورِ دینیہ میں مشورہ ضروری ہے : حضرت والا تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے سر پر پڑارہے تو سلامتی اسی میں ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں ہی کو بڑا سمجھنے لگے اور ان سے ملا جلا رہے، بلکہ امورِ دینیہ میں بوقت ضرورت ان سے مشورہ بھی لیتارہے۔ چناں چہ حضرت والا کا اسی پر عمل ہے۔معمولات مشورہ کی حقیقت : حضرت والا عموماً امورِ مباحہ میں کسی کو رائے بھی نہیں دیتے اور فرمایا کرتے ہیں کہ رائے تو اہل تجربہ سے لی جاوے، میں دعا کرتا ہوں اور یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ آج کل لوگ رائے دینے والے کو نتیجہ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اگر نتیجہ مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو الزام دیتے ہیں، حالاں کہ رائے اور مشورہ دینے کی حقیقت تو صرف یہ ہے کہ