انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
مومنین۔ گو الوان سب کے مختلف ہوتے ہیں، لیکن قدرِ مشترک سب کے لیے نعمت ہے اور سب سے بڑی اور مختصر اور جامع اور ہر وقت کے استحضار کے قابل اور ہر حالت پر منطبق اور اس کے مناسب چیز یہ ہے کہ جس حالت سے دین کا ضرر نہ ہو، خیر محض ہے، خواہ طبیعت کے کیسے ہی خلاف ہو اور وہ عمر بھر لازم رہے۔ بس قلب میں اس کو راسخ کر لیا جاوے اور اپنے دل کو مشغول بالذکر رکھا جاوے اور اس کو اصل شغل سمجھا جاوے، اس کے ہوتے ہوئے کسی سعی کے فوت ہونے کا افسوس نہ کیا جاوے، کیوں کہ علاوہ عبادت موظّفہ کے اور اشغال عارض کے سبب ہیں اور یہ (مشغولی بالذکر) سب عوارض کے انصرام اور اختتام کے بعد باقی ہے، بس اس نظام کے بعد فکر اور سوچ اور تمنا اور انتظار کو دل سے نکال دیا جاوے، ان شاء اللہ تعالیٰ حیاتِ طیبہ کا صرف حصول ہی نہیں بلکہ مشاہدہ ہو جاوے گا اور بعد چندے نفس مطمئنہ ہوکر اس پر راضی بلکہ لذّت گیر ہو جاوے گا، بقول ایک صاحبِ حال کے ؎ ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا، اب تو خلوت ہوگئی ومن لم یذق لم یدر رزقنا اللّٰہ ہذا الذوق في حیاتنا ووقت مماتنا ونختم الکلام مستعیفین برحمۃ اللّٰہ العلام۔توکل کا درجہ ماموربہ : ایک صاحبِ خیر نے جو اپنے فرزندان کے ناکامی ذرائع معاش سے پریشان تھے، لکھا کہ اپنی اولاد کے معاملات سے اس قدر وابستگی رہتی ہے کہ دن رات اسی خیال میں مستغرق رہتا ہوں، نماز کے بعد نیز سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے، بس بچوں کی کامیابی، فلاح وبہبود کے علاوہ سب دعائیں کرنا چھوڑ دیں۔ اس خیال سے بڑی تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ خدانخواستہ اگر مرتے وقت بھی بچوں کا خیال رہا تو میں نہ دین کا رہوں گا، نہ دنیا کا۔ توکل میرے اندر نہیں رہا، قلب میرا تاریک ہوگیا، حالت میری بد سے بدتر ہوگئی، حضور اپنے ذلیل وخوار غلام کی طرف خاص توجہ فرماویں۔ تحقیق: یہ احساس وفکر خود علامت ہے ایمانِ کامل کی۔ اللہ تعالیٰ مزید تکمیل ورسوخ عطا فرماوے اور توکل کے نقص کا شبہ بھی محض وہم ہے، توکّلِ کامل کے درجات ہیں۔ کاملین کا سانہ سہی، مگر جو درجہ توکل کا ماموربہ ہے (کوئی ماموربہ ناقص نہیں ہوتا) وہ بھی بفضلہ تعالیٰ حاصل ہے، جس کی کھلی علامت ہر حالت میں دعا کرنا ہے، اگر کارساز پر نظر نہ ہوتی تو دعا ہی کیوں کی جاتی اور یہی نظر توکل ماموربہ ہے اور اس سے آگے کے درجات زیادہ کمال کے ہیں مگر یہ بھی ناقص نہیں، بالکل اطمینان رکھا جاوے۔