انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
واستقلال کا حکم ہے کیوں کہ تبلیغ میں بعض ناگواریاں پیش آتی ہیں، اگر صبر واستقلال سے کام نہ لیا تو تبلیغ دشوار ہو جائے گی۔امر بالمعروف میں فوتِ مصلحت عذر نہیں : تہذیب: ترکِ تبلیغ کے لیے محض ناگواری مخاطب عذر نہیں، حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ {اَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا اَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ} [الزخرف: ۵] (کیا ہم تم کو نصیحت کرنے سے پہلو تہی کریں گے کہ تم لوگ حد سے نکلنے والے ہو) حالاں کہ حق تعالیٰ کے ذمہ تو امر بالمعروف واجب نہیں، وہ اس سے پاک ہیں کہ ان پر کوئی بات واجب ہو، بس یاد رکھیے کہ امر بالمعروف کے لیے عذر صرف یہ ہے کہ لحوقِ ضرر کا اندیشہ ہو اور ضرر بھی جسمانی، محض فوفِ منفعت عذر نہیں جو شخص خدا سے بیگانہ ہے اگر اس کو احکامِ الٰہی کی تبلیغ ناگوار ہے تو ہماری جوتی سے ہم تبلیغ سے کیوں رُکیں، بس ہم کو خدا پر نظر رکھنا چاہیے اور صرف اس کی رضا کا طالب ہونا چاہیے، چاہے تمام عالَم ناراض ہو جائے، بس تمام عالَم سے کہہ دو کہ ہم نے ایک ذات سے علاقہ جوڑ لیا ہے جو اس سے ملے وہ ہمارا دوست ہے، جو اس سے الگ ہو، وہ ہم سے الگ ہے۔ابتدا میں تبلیغِ اعمال اخلاق کے پیرایہ میں ہونا چاہیے : تہذیب: نصیحت کا قاعدہ ہے کہ مُصْلِح اپنے اوپر مشقت ڈالے اور مخاطب کو آسان طریقہ سے سمجھائے اور ابتدا میں تو تالیفِ قلب کرے اور انتہا میں صفائی سے کام لے، یعنی مسئلہ کو صاف صاف بیان کر دے، گول مول نہ بیان کرے، ابتداء میں ترغیبِ اعمال اخلاق کے پیرایہ میں دینا چاہیے تاکہ مخاطب کو گرانی اور وحشت نہ ہو مثلاً اس طرح کہ نفس کو پابند کرنا اور آزادی سے روکنا اور اس میں استقلال اور پختگی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ انسان اور جانور میں کیا فرق، مردانگی اس میں ہے کہ انسان اپنے نفس پر قابو یافتہ ہو، نفس کا تابعِ فرمان نہ ہو اور نفس کو تباہ کرنے والی چیز تکبر ہے، انسان کو تواضع اور عاجزی اختیاری کرنا چاہیے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی سب سے بڑی عظمت والے کی عظمت اس کے پیش نظر رہے۔ اسلام نے اس کے لیے پانچ وقت کی نماز مقرر کی ہے۔ جس کو باقاعدہ ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا نقش اس کے دل پر جم جاتا ہے۔ دوسری تباہ کرنے والی چیز نفسانی خواہشوں کی حرص ہے مثلاً کھانے پینے اور عورتوں سے مخالطت کرنے کی حرص اس کے لیے اسلام نے روزہ فرض کیا ہے، تیسری مہلک شے حُبِّ مال ہے اس کے لیے اسلام نے زکوٰۃ فرض کیا ہے۔اخلاق کے پیرایہ میں نصیحت کرنا ایسا ہے جیسے مٹھائی میں کونین دینا : تہذیب: اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کے واسطے بھی یہی تدبیر کرتے ہیں کہ مٹھائی میں کونین لپیٹ کر دیتے ہیں۔ اس لیے حکم ہے حکمت کے ساتھ دعوت کرنے کا اور اخلاق کے پیرایہ میں اعمال کی ترغیب دینے کا۔