انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۔ ایک پیر کے مرید راجپوت تھے۔ اس نے اپنے پیر سے کہا کہ اپنے لڑکے کو جو آپ وصیتیں کر رہے ہیں ایک وصیت یہ بھی کر دیجیے کہ کسی راجپوت کو مرید نہ کرے۔ پیر نے کہا: یہ کیا بات ہے دیکھو تم راجپوت ہو اور کیسے مخلص ہو۔ کہنے لگا: بار ہا میرے دل میں آیا کہ تمہاری بھینس کھول لے جاؤں۔ میں تو ضبط کرتا رہا لیکن سب ضبط نہیں کر سکتے۔ ۲۔ ایک رئیس خاں صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک شخص نے ایک پٹھان بزرگ کی تعریف کی۔ مخاطب نے کہا کہ بے دیکھے ہم نہ مانیں گے۔ چناں چہ دونوں ان کی خدمت میں گئے اور مخاطب نے اُن کو جوش دلانے کے لیے کہا کہ آپ جنگل میں تنہا رہتے ہیں، جہاں شیر بھیڑیئے رہتے ہیں، آپ کو تو بہت ڈر لگتا ہوگا؟ بزرگ کو جوش آگیا کہ بز دلی کی نسبت ان کی طرف کی۔ کہنے لگے: میں شیر بھیڑیے سے کیا ڈرتا، میں خدا تک سے تو ڈرتا نہیں۔ اسی طرح ایک بار حضرت مولانا یعقوب صاحب ؒ نے فرمایا کہ یہ شیخ زادہ کی قوم بڑی خبیث ہے۔ ایک شخص نے اسی مجلس میں کہا کہ حضرت آپ بھی تو شیخ زادہ ہیں۔ بے ساختہ فرمایا کہ میں بھی خبیث ہوں۔ حضرت نے فرمایا میں یہ کہا کرتا ہوں کہ شیخ کی قوم فطرتی ہوتی ہے۔ ۲۳۔فیضی اور ایک شاعر : فیضی اور ابو الفضل وغیرہ شاہی دربار میں کسی اور دوسرے اہلِ کمال کو نہیں آنے دیتے تھے، ایک روز ایک شاعر جو نووارد تھا بوسیدہ لباس پہنے شکستہ حالت میں فیضی کو سڑک پر نظر آیا۔ فیضی کی سواری اس شاعر کے سامنے نظر آئی تو اُس نے اُٹھ کر سلام کیا اور گاڑی روک لینے کا اشارہ کیا۔ فیضی نے اس کو مُسافر سمجھ کر کہا کون؟ کہا کہ ماعر ہستم۔پوچھا: ماعر کدام باشد؟ کہا ہر کہ معر گوید۔ پوچھا: معر کرا گویند؟ اس نے کہا ؎ رفتم دربازار خریدم یک گنّا قل أعوذ بربّ النّا ملک النّا إلہٰ النّا فیضی یہ سمجھا کہ کوئی مسخرہ ہے، دربار میں نقل مجلس ہوگا۔ دربار میں حاضر کیا۔ اس حالت کو دیکھ کر کسی نے ان کی طرف التفات نہ کیا۔ وہ شاعر جاکر زمین پر بیٹھ گئے اور سب اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے وہ شاعر بے تکلف بادشاہ کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے گر فروتر نشست خاقانی نے مراننگ ونے ترا ادب است