انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غلبہ رجا کب انفع ہے اور غلبۂ خوف کب ؟ تہذیب: جن لوگوں میں اعمالِ صالحہ کا غلبہ ہوکہ وہ زیادہ تر اعمالِ صالحہ میں مشغول ہیں اور گناہوں سے بچنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں گو کبھی کبھی ابتلا ہوجاتاہے ان پر غلبۂ رجا انفع ہے اور جن میں اعمالِ سیئہ کا غلبہ ہے کہ وہ زیادہ تر اعمال سیئہ میں مبتلا ہیں اور اعمال صالحہ قلیل ہیں، ان کے لیے غلبۂ خوف انفع ہے جب تک کہ اعمالِ صالحہ کا غلبہ ہو۔ پس جب تک اعمالِ صالحہ کا غلبہ نہ ہو اس وقت تک غلبۂ خوف ہی میں ان کو رکھا جائے گا۔خوف ورجا کی حقیقت اور اس کا درجہ مامور بہ : تہذیب: خوف کی حقیقت ہے احتمالِ عذاب کہ انسان کو اپنے متعلق احتمال ہو کہ شاید مجھے عذاب ہو اور یہ احتمال مسلمانوں میں ہر شخص کو ہے اور یہی مامور بہ ہے اور اسی کا بندہ مکلف کیا گیا ہے اس کانام خوفِ عقلی ہے۔ وعید کو سن کر دل تھرانا۔ آنسو کا نکلنا خوف مامور بہ میں داخل نہیں، کیوں کہ یہ غیر اختیاری ہے۔ اسی طرح رجا کی حقیقت ہے احتمالِ نجات اور ایسا بھی کوئی مسلمان نہیں جس کو اپنے متعلق نجات کا احتمال نہ ہو، پس ایسا کوئی مسلمان نہیں جو خوف ورجا کے درجۂ مامور بہ سے خالی ہو، ہاں! درجاتِ احتمال متفاوت ہیں۔غلبۂ رجا کے ساتھ بھی خوفِ عقلی یقینی ہوتاہے : تہذیب: یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ غلبۂ رجا کی حالت میں خوف بھی ضرر رہتاہے مگر غلبۂ خوف کو نہیں ہوتا، یعنی وہ درجہ نہیں ہوتا جس کو عام لوگ خوف سمجھتے ہیں یعنی خوفِ طبعی، بلکہ خوفِ عقلی ضرور ہوتاہے۔درجاتِ خوف ورجا : تہذیب: ایک خوف تو بمعنی احتمالِ عقلی عذاب ہے یہ تو شرطِ ایمان ہے اور ایک درجہ خوف کا یہ ہے کہ تقاضائے معصیت کے وقت آیاتِ وعید اور عذابِ خداوندی کو یاد کرکے سوچ سوچ کے گناہوں سے بچاجائے یہ درجہ فرض ہے۔ اس کے فقدان سے کفر نہ ہوگا ہاں! گناہ ہوگا اور ایک درجہ خوف کا یہ ہے کہ مراقبات واشغال سے آیاتِ وعید اور عظمت وجلالِ حق کو ہر دم مستحضر اور پیشِ نظر رکھا جائے۔ یہ درجہ مستحب ہے اور سب درجات مکتسب ہیں جو کسب سے حاصل ہوجاتے ہیں اور ان سے آگے ایک درجہ اور ہے جو اختیار سے باہر ہے وہ یہ کہ آثارِ خوف اس قدر غالب ہوجائیں کہ اگر ان کو کم کرنا یا بھلانا بھی چاہے تو اختیار وقدرت سے باہر ہو، یہ محض وہبی ہے، جو درجاتِ سابقہ مکتسبہ کے حاصل کرنے کے بعد محض عطائے حق سے بعض کو حاصل ہوجاتاہے۔ ایسا ہی اس کے مقابلے میں رجا کے بھی درجات ہیں: ایک درجہ شرطِ ایمان بمعنی احتمالِ نجات اور ایک درجہ فرض ہے۔ ایک مستحب ہے اور ایک درجہ محض وہبی ہے۔ (۱) توکل کی حقیقت (۲) خوفِ طبعی توکل کے منافی نہیں (۳) معیتِ الٰہی کی حقیقت مع اقسام: تہذیب: سوال: حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں چند جگہ مثلاً مصر سے مدائن کی طرف بوجہ خوفِ اہلِ مصر تشریف لے جانا، عصا کا