انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کہ صدقہ ایک مستحب فعل ہے اور مستحب سے مقدم واجبات کا ادا کرنا ہے، پس تم نے جو لوگوں کی موروثی زمین دبا رکھی ہے، لڑکیوں عورتوں کی میراث نہیں دیتے، شریکوں کا حق مار رکھا ہے، پہلے اس سے توبہ کرو اور موروثی وغیرہ کو چھوڑ دو پھر مستحبات کے درپے ہونا۔حیوانات، جمادات، نباتات سب اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں : ارشاد: کوئی زبانِ قال سے سوال کرتا ہے، کوئی زبانِ حال سے بہ قصد اور کوئی زبانِ حال سے بلا قصد، شریعت میں بھی زبانِ حال سے قصداً سوال کرنے کی ایک نظیر موجود ہے، حدیث میں ہے: من شغلہ القرآن عن ذکري ومسألتي أعطیتہ أفضل ما أُعطي السائلین یعنی جو شخص قرآن میں اس درجہ مشغول ہو کہ اُسے ذکر ودعا کی بھی فرصت نہ ہو، یا دعا کی طرف التفات نہ ہو تو حق تعالیٰ اس کو سائلین سے زیادہ عطا فرماتے ہیں کیوں کہ تلاوت میں مشغول ہونا، یہ بھی سوال بہ زبانِ حال قصداً ہے اور بلا قصد میں سب شامل ہیں، جمادات بھی، نباتات بھی اور ملحدین ومتکبرین بھی، کیوں کہ سب کی حالتِ حدوث وامکان بتلا رہی ہے کہ یہ کسی بڑی ہستی کے محتاج ہیں جس کے قبضے میں سب کا وجود وبقا ہے۔ چناں چہ ہر ملحد ومتکبر کی حالت دیکھ لی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ احتیاج میں سر سے پیر تک بندھا ہے، بس پورے طور سے {یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِط کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍج} [الرحمٰن: ۲۹] کی صداقت ظاہر ہوتی ہے، یہاں پر من کا استعمال تغلیباً ہے اور اگر اہلِ تحقیق کا قول لیا جائے تو پھر تغلیب کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ ان کے نزدیک جمادات ونباتات وغیرہ سب ذوی العقول ہیں، غیر ذوی العقول نہیں، گو ان کی عقل اس درجہ نہ ہو، جو تکلیف بالاحکام کے لیے کافی ہو مگر معرفتِ حق کے لیے ضرور کافی ہے۔ چناں چہ حیوانات وجمادات ونباتات سب کے سب خدا کو پہچانتے ہیں، بلکہ انبیا، اولیا تک کو پہچانتے ہیں۔خدا سے سوال ضرور کرنا چاہیے : ارشاد: کسی سے سوال نہ کرنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے خزانے میں کمی ہو یا اس میں شفقت ورحم نہ ہو، یا سخاوت نہ ہو اور جس میں یہ سب باتیں موجود ہوں کہ اس کے خزانے بھی بے انتہا ہوں، شفقت ورحمت بھی کامل ہو، سخاوت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو، اس سے سوال نہ کرنا تو بڑا غضب ہے، بس خدا تعالیٰ سے سوال ضرور کرنا چاہیے۔عبادت کو عنوانِ دعا سے تعبیر کرنے کا نکتہ : ارشاد: قرآن میں جا بجا عبادت کو عنوانِ دعا سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ تم جو ہماری عبادت کرتے ہو، حقیقت میں ہم سے مانگتے ہو، اس لیے ندا غیر اللہ حرام ہے کہ وہ عبادت کی فرد ہے اور عبادتِ غیر حرام ہے۔سوال کی حقیقت عبادت اور صورتِ دعا ہے : ارشاد: {یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِط} [الرحمٰن: ۲۹] میں معنی