انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جاوے یا اور کوئی آفت آجاوے، مگر آخرت میں نہیں ہوتا، کیوں کہ الہام حجتِ شرعیہ نہیں، اس لیے اس کی مخالفت معصیت نہیں جس سے آخرت میں مواخذہ ہو اور وحی کی مخالفت سے آخرت میں بھی مواخذہ ہوتا ہے۔تکبر کی حقیقت اور اس کا علاج : تحقیق: تحریر فرمایا کہ تکبر کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کمال میں اپنے کو دوسروں سے اس طرح بڑا سمجھے کہ اس کو حقیر وذلیل سمجھے۔ علاج یہ ہے کہ اگر یہ سمجھنا غیر اختیاری ہے تب تو اس پر ملامت نہیں، بشرط یہ کہ اس کے مقتضا پر عمل نہیں، یعنی زبان سے اپنی تفضیل اور دوسرے کی تنقیص نہ کرے، نیز دوسرے کے ساتھ برتاؤ تحقیر کا نہ کرے اور اگر قصداً ایسا سمجھتا ہے یا سمجھنا تو بلا قصداً ہوا، لیکن اس کے مقتضا مذکور پر بہ قصد عمل کرتا ہے تو مرتکب کبر کا اور مستحق ملامت اور عقوبت ہے اور اگر اس علاج کے ساتھ زبان سے بھی اس کی مدح وثنا کرے اور برتاؤ میں اس کی تعظیم کرے تو یہ أعون في العلاج ہے۔زیادہ عمل کی توفیق سے غوائلِ عجب کا اندیشہ ہے: تحقیق: ایک صاحبِ علم نے عرض کیا کہ حضرت دنیاوی ارادے بھی اکثر ٹوٹتے رہتے ہیں اور دینی تو کوئی مشکل سے پورا ہوتا ہے، پانچ وقت کی اُلٹی سیدھی نماز کے علاوہ جماعت وتہجد تک کا التزام نہیں قایم رہتا، برسوں سے یہی حال ہے اب ہمت بالکل ٹوٹتی جارہی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حکیم ورحیم ہیں، بندوں کی مصلحت کو ان سے زیادہ کون جان سکتا ہے، زیادہ عمل کی توفیق سے دیگر غوائل کا اندیشہ ہوسکتا تھا مثلاً: عجب کا، پھر اسی میں اللہ تعالیٰ کے تصرف وقدرت اور اپنے عجز وعبدیت کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ اذکار واشغال اور تمام فضائل عمل کی بڑی غایت مشاہدہ حق واستحضار ہے۔ الحمدللّٰہ! وہ اس طرح بھی حاصل ہے۔ تحقیق: انہیں صاحبِ علم نے لکھا کہ دینی اُمور میں ارادوں کے ٹوٹتے رہنے سے کبھی کبھی اپنی راندگی کا خیال آتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ یہ خیال صحیح نہیں۔ بُعد اور راندگی کی علامت غفلت وبے پروائی ہے، جیسا کہ اس قسم کے لوگوں میں مشاہدہ ہوتا رہتا ہے نہ کہ کوتاہیوں کا احساس اور صدمہ وقلق۔ارادہ اور نیت پر بھی اجر ملتا ہے ۔: تحقیق: ان ہی صاحب علم نے عرض کیا کہ ارادوں کی اس بے بسی سے بعض اوقات جی چاہتا ہے کہ بس ارادہ کیا ہی نہ کروں لیکن پھر بھی قدرت نہیں۔ ارشاد فرمایا: ارادہ ونیت کا اجر تو بہر حال حاصل ہوتا ہے اس کو مفت کیوں ضائع کیا جاوے، عمل کی کوتاہیوں پر استغفار کرتے رہنا چاہیے، لیکن استغفار کے بعد پھر کام میں لگ جانا چاہیے، ہر وقت کوتاہیوں کا مراقبہ مُضر ہے، مایوسی وپست ہمتی پیدا ہوتی ہے۔ حضرت شیخ اکبر ؒ نے لکھا ہے کہ توبہ اور استغفار کے بعد معاصی کا ذہول قبولِ توبہ کی علامت ہے۔ اس زمانہ میں خاس کر رجاء کا غلبہ بھی مفید ہے، میں تو إحیاء العلوم میں کتاب الخوف کا جو حصہ ہے اس کے مطالعہ سے منع کرتا ہوں۔