انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھنے میں یا نقل کرنے میں۔ ۱۶۔ بلا ضرورت بالکلّیہ اور ضرورت میں بلا اجازت وتجویز طبیبِ حاذق شفیق کے کسی قسم کی دوا ہرگز استعمال نہ کریں۔ ۱۷۔ زبان کی غایت درجہ ہر قسم کی معصیت ولا یعنی باتوں سے احتیاط رکھیں۔ ۱۸۔ حق پرست رہیں، اپنے قول پر جمود نہ کریں۔ ۱۹۔ تعلقات نہ بڑھاویں۔ ۲۰۔ کسی کے دینوی معاملہ میں دخل نہ دیں۔ ۲۱۔ حتی الامکان دنیا ومافیہا سے جی نہ لگاویں اور کسی وقت فکرِ آخرت سے غافل نہ ہوں۔ ۲۲۔ ہمیشہ ایسی حالت میں رہیں کہ اگر اسی وقت پیامِ اجل آجائے تو کوئی فکر اس تمنا کا مقتضیٰ نہ ہو {لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍلا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ} [المنافقون: ۱۰] اور ہر وقت یہ سمجھیں کہ شاید ’’ہمیں نفس نفس واپسین بود‘‘ اور علی الدوام دن کے گناہوں سے قبل رات کے اور رات کے گناہوں سے قبل دن کے استغفار کرتے رہیں اور حتی الوسع حقوق العباد سے سبکدوش رہیں۔ ۲۳۔ خاتمہ بالخیر ہونے کو تمام نعمتوں سے افضل واکمل اعتقاد رکھیں اور ہمیشہ خصوصاً پانچوں نمازوں کے بعد نہایت لجاجت وتضرّع سے اس کی دعا کیا کریں اور ایمانِ حاصل پر شکر کیا کریں حسبِ وعدہ {لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ} [إبرایہم: ۷] یہ بھی اعظم اسبابِ ختم بالخیر سے ہے۔ترکِ فضول کا معیار : ایک صاحب نے دریافت کیا کہ ترکِ فضول کا معیار کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ امر اجتہادی ہے، اجتہاد سے یہ دیکھا جاوے کہ اگر یہ بات ہم نہ کہیں گے تو اس سے اپنا یا دوسرے کا خفیف یا شدید دنیوی یا دینی ضرر ہوگا ایسی بات تو کہی جاوئے اور جو ایسی نہ ہو نہ کہی جاوے۔ ابتدا میں یہی معیار ہے۔تفریحِ طبع کے لیے کلام کرنا فضولیات میں داخل ہے : انھیں صاحب نے دریافت کیا کہ احباب سے تفریحِ طبع کے لیے کلام کرنا یہ بھی فضولیات میں داخل ہے یا اس کی اجازت ہے اگر اجازت ہے تو کس حد تک؟ فرمایا کہ اوپر کے معیار سے تو ظاہراً خارج ہے لیکن اس کے بالکلیہ ترک سے اکثر طبائع میں ملال وکلال کی کیفیت پیدا ہونے سے فتور وکسل کا احتمال قریب ہوسکتا ہے جو ایک خفیف سا ضرر ہے۔باقی حد اس کی یہ ہے کہ ایسے وقت اس کو چھوڑ دیا جاوے کہ اس کا کسی قدر اشتیاق طبیعت میں رہ جاوے۔