انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہُمْ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ} [الزمر: ۱۷، ۱۸]، یعنی جو لوگ شریعت کا کامل اتباع کرتے ہیں۔ علماً وعملاً وہی ٹھیک راستہ پر ہیں اور وہی عقلا ہیں، مولانا محمد یعقوب صاحب ؒ کے سامنے جب کوئی اہلِ یورپ کو عقلمند کہتا تو نہایت برہم ہوتے اور فرماتے تھے کہ جو قوم خدا کو بھی نہ پہچانے وہ خاک عقلمند ہے، ہاں یوں کہو کہ چاقو قینچی بنانا جانتے ہیں، یعنی کاریگر اچھے ہیں اور صنعت کو عقل سے کیا واسطہ، عقل کا کام تو علمِ معرفت ہے۔انسان ملائکہ سے نوعاً افضل ہے : ارشاد: حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس مخلوق کو میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے، یعنی اپنی خاص عنایت وفضل سے، اس کو اور اس مخلوق کو کیسے برابر کر دوں جس کو میں نے کلمۂ کن سے پیدا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان ملائکہ سے نوعاً افضل ہے۔اہل سے نا اہل اگر منازعت کرے تو کام اس پر چھوڑ دے : ارشاد: اہل کے سامنے اگر کوئی نا اہل دعویٰ کرنے لگے تو اس کو چاہیے کہ اس سے منازعت نہ کرے بلکہ اپنا کام چھوڑ کر اس کے سپرد کر دے اور تم یہ نہ سمجھو کہ نا اہل پر کام چھوڑ دینے سے دین کا کام رُک جائے گا۔ اس لیے تم بے فکر بیٹھے رہو۔ اللہ تعالیٰ خود اس نا اہل کو نکال دے گا۔اعمالِ شرعیہ میں مالا یطاق تکلیف برداشت کرنے کی ضرورت نہیں : ارشاد: بیماری میں ایسی تکلیف برداشت کرنا کہ چار آدمی اس کو لے جاکر مسجد میں بٹھلائیں میں تو پسند نہیں کرتا، ہاں اگر دوسروں کو بالکل مشقت نہ ہو یا (تنخواہ دیتا ہے) اور اس کو خود بھی مشقت نہ ہو، نہ عجب وشہرت کا اندیشہ ہو تو مضائقہ نہیں۔جس وقت جس حالت کا جو مقتضا ہو، اس کو بے تکلف ظاہر کر دینا چاہیے : ارشاد: کاندھلہ میں دو بھائی تھے، ایک عالم دوسرے درویش، ایک دفعہ عالم صاحب بیمار ہوئے تو وہ تکلیف میں اللہ اللہ کر رہے تھے۔ درویش بھائی ان کی عیادت کو گئے تو کہا کہ بھائی صاحب آہ آہ کرو تو اچھے ہوگے تاکہ عجز وضعف ظاہر ہو۔ حالاں کہ ظاہر میں اللہ اللہ کرنا افضل تھا۔ مگر اس میں اپنی قوت کا اظہار تھا کہ ہم بیمار ہوکر بھی ذکر کے پابند ہیں، اس لیے شیخ نے کہا کہ آہ آہ کرو، کیوں کہ حق تعالیٰ نے بیماری اس لیے دی ہے تاکہ تمہارا عجز وضعف ظاہر ہو، اس کے ظاہر ہونے کے بعد وہ جلدی اس کو دُور کر دیں گے، غرض ہمیں تو یہی مذاق پسند ہے کہ جس وقت جس حالت کا جو مقتضا ہو اس کو بے تکلف ظاہر کیا جائے۔ناکامی کی صورت میں پورا اجرِ آخرت میں ملے گا : ارشاد: حدیث میں ہے کہ جس غزوہ میں غنیمت مل جائے اور صحیح سالم آجائے، تو وہ ثلث اجر یہیں مل گیا اور جس میں جان کا بھی نقصان ہو اور مال بھی کچھ نہ ملے تو اس کا پورا اجر آخرت میں جمع رہا، تو بتلاؤ یہ بات خوشی کی ہے یا نہیں؟ حدیث سے اور بزرگوں کے کشف سے بھی معلوم ہوا کہ جس عمل کا ثمرہ کچھ یہاں مل جاتا ہے تو اجرِ آخرت میں کمی ہو جاتی ہے، اس لیے یہاں اگر ناکامی ہو تو زیادہ خوش ہونا چاہیے کہ پورا اجر جمع