انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نقطۂ نظر : مسلمانوں کا تو یہ مذہب ہونا چاہیے کہ باستثنائِ ضرورتِ شدیدہ ایک ہی کی طرف مشغول رہے اور یہ حالت رہے ؎ ما قصۂ سکندر ودارانہ خواندہ ایم از ما بجز حکایت مپر ووفا میرسدنیوی یا دینی ضرورت : فرمایا کہ گو دُنیوی یا دینی ضرورت سے کسی سے تعلق شغل مع اللہ کے منافی نہیں، مگر بعض اوقات اس تعلق کا اثر ضرورت پر غالب ہوتا ہے، البتہ یہ قابلِ ترک ہے۔تقدیر کا مسئلہ : فرمایا کہ تقدیر کا مسئلہ اس لیے تعلیم کیا گیا ہے کہ مسلمان کو ناکامی پر حسرت نہ ہو اور حسرت میں ہمت نہ گھٹے، تو یہ مسئلہ ہمت بڑھانے کو سکھایا گیا تھا، اب لوگ اُلٹا سمجھ گئے کہ کچھ نہ کرو، ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جاؤ، یہ سب کمی علم کی ہے۔کبھی صورت بھی سیرت تک پہنچا دیتی ہے : فرمایا کہ جو عمل خلوص اور محبت سے خالی ہوگا، وہ بے مغز کا بادام ہے، بے رس کا آم ہے، اس کے پیدا کرنے کی تو کوشش کرتے رہنا چاہیے، مگر جب تک نہ اس وقت تک اس کی نقّالی کو بھی بے کار نہیں سمجھنا چاہیے، اس لیے کہ کبھی صورت بھی سیرت تک پہنچا دیتی ہے، اصل میں تعمیر الظاہر والباطن کی ضرورت ہے، اگر اجتماعًا نہ ہو تو تعاقباً سہی، ہمارے حضرت حاجی صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ عمل ریا سے بھی ہو، اس کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے، کرتا رہے، اس لیے کہ ریا سے عادت ہو جاتی ہے اور عادت سے عبادت۔جوش کا نہ ہونا نقص نہیں : فرمایا کہ لوگ جوش نہ ہونے کو نقص سمجھتے ہیں، یہ تو محض خیال ہی خیال ہے، بعض کو محبت ہوتی ہے، عمل میں خلوص بھی ہوتا ہے، مگر جوش نہ ہونے کی وجہ سے احساس نہیں ہوتا، مگر جوش کوئی مقصود چیز نہیں، یہ اختلاف فطری ہے، بعض میں ضبط ہوتا ہے اور بعض میں جوش وخروش۔فضیلت کی حقیقت : فرمایا کہ کسی صفت میں اپنے کو دوسرے سے اکمل سمجھنا جائز ہے، کیوں کہ وہ حِسّی چیز ہے، مگر افضل سمجھنا ناجائز ہے کیوں کہ وہ غیبی چیز ہے، فضیلت کی حقیقت ہے کثرتِ ثواب عند اللہ، جس کا حاصل مقبولیت ہے مثلاً: ایک شخص کی ایک آنکھ ہے اور دوسرے کے دو تو دو والے کو یہ سمجھنا کہ میں اکمل ہوں، میرے پاس خدا کی دی ہوئی نعمت ہے، یہ جائز ہے، مگر اس سے افضل سمجھنا جائز نہیں، کیوں کہ آنکھ کو قرب عند اللہ میں کوئی دخل نہیں یا ایک شخص