انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے بزرگان بجائے بزرگاں سے مُراد برکت ہے : اور یہ واقعہ ہے کہ اس میں برکت ضرور ہے۔ چناں چہ مولانا شیخ محمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت حاجی صاحب ؒ کی جگہ پر بیٹھ کر جب ذکر کرتا ہوں تو زیادہ انوار وبرکت محسوس کرتا ہوں۔ فرمایا کہ کثرتِ تکلم کا منشا کبر ہے کہ اور لوگ یہ سمجھیں گے کہ اسے کچھ نہیں آتا، اس لیے بولتا ہے۔مشورہ حضرت والا برائے مدرسہ دیوبند : فرمایا کہ میں نے مشورہ یہ دیا تھا کہ مدرسہ کو ایک دم مقفل کر دیا جائے اور ملک میں اعلان کر دیا جائے کہ ان وجوہ سے مدرسہ کو بند کیے دیتے ہیں، فضا خوش گوار ہونے پر کھول دیں گے اور سب مفسدوں کو نکال باہر کر دیا جاتا اور پھر جو داخل ہوتا، وہ ایک تحریری معاہدہ کے ساتھ داخل کیا جاتا کہ اگر ان شرائط کے خلاف کیا تو مدرسہ سے خارج کر دیے جاؤگے اور یہی شرائط مدرسین کے ساتھ ہوں، باقی اب تو مدرسہ کو اکھاڑہ بنا رکھا ہے۔ میں نے مہتمم صاحب سے صاف کہہ دیا تھا کہ مدرسہ کی حالت یہ ہے کہ جیسے بے روح کے جسم ہوتا ہے، اب اگر اس صورت میں مدرسہ کو ترقی بھی ہوئی تو یہ ترقی ایسی ہوگی، جیسے مر جانے کے بعد لاش پھول جاتی ہے اور اندیشہ ہوتا ہے کہ اس صورت میں پھول کر جب پٹھے گی تو محلہ، بستی کو بھی مارے بدبو کے سڑا دے گی۔ اس پر مہتمم صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اب سنا جاتا ہے کہ طلبہ کا تو بالکل ہی طرز بدل گیا۔ یہی پتہ نہیں چلتا دیکھنے سے کہ یہ علی گڑھ کالج ہے یا دینی مدرسہ، اپنے بزرگوں کا طرز چھوڑ دیا پھر نور وبرکت کہا۔ یہ سب اسی کمبخت نیچریت کی نحوست ہے، طلبا کے لباس میں، طرزِ معاشرت میں نیچریت کی جھلک پیدا ہوگئی۔ منتظمین اساتذہ سب کے سب طلبا سے مغلوب ہیں، محض اس وجہ سے کہ اگر یہ نہ رہے تو ہماری مدرسی بھی جاتی رہے گی۔اُصولِ صحیحہ : فرمایا کہ لوگوں نے اصول صحیحہ کو چھوڑ دیا ہے جس سے ایک عالم کا عالم پریشانی میں مبتلا ہے، حتیٰ کہ حکومت اپنی رعایا سے، باپ اپنے بیٹے سے، استاد اپنے شاگرد سے، پیر اپنے مرید سے، خاوند اپنی بیوی سے، آقا اپنے نوکر سے اور اگر اصول صحیحہ کا اتباع کیا جاوے اور ہر چیز کو اپنی حد پر رکھا جاوے تو کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں ہوسکتی۔خادمانِ دین کے لیے چند تجربہ کی باتیں : فرمایا کہ خادمانِ دین یعنی جن کے متعلق افتا وتبلیغ وتعلیم وتربیت کا کام سپرد ہو، وہ کسی کی گواہی نہ دیں، نیز کسی کے معاملہ میں حکم یعنی فیصلہ کنندہ بھی نہ بنیں، کیوں کہ ایسے کرنے سے وہ ایک جماعت سے شمار کر لیا جاوے گا اور دوسری جماعتوں کے مسلمان اس کے فیوض اور برکات سے محروم رہ جائیں گے۔