انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) مرضِ باطن کی تعریف یہ ہے کہ وہ معصیت ہو اور جو معصیت نہیں وہ مرض باطن ہی نہیں مثلاً: حبِّ دنیا کو جب مرض کہا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حُبّ دنیا کی ہر قسم مرض ہے، بلکہ حُبّ دنیا کی ایک قسم معصیت ہے مثلاً: روپے پیسے کی اتنی محبت ہونا کہ اس کے پیچھے حلال وحرام کی تمیز نہ رہے، یہ معصیت ہے اور حُبّ دنیا کی یہی قسم مرض باطن ہے، اسی طرح حرص کے تمام اقسام مرض باطن میں داخل نہیں بلکہ جو قسم معصیت ہے مثلاً: کسی منکر اور منہی عنہ چیز کی حرص ہو، یہ مرض باطن ہے اور کسی حلال چیز کی حرص ہو تو وہ لُغتاً حرص ہوگی، مگر حرص کی اس قسم کو امراضِ باطنہ میں داخل نہیں کریں گے۔ (۴) فرمایا کہ مومن تو کبھی اندیشہ سے خالی نہیں رہ سکتا، کیوں کہ اندیشہ کا بڑھنا تو بے فکری ہے جو مفضي إلی الکفر ہو جاتی ہے۔(۵) عقیدت کی تعریف : فرمایا کہ آج کل لوگ بزرگوں کی صحبت میں تو رہتے ہیں، مگر جیسی عقیدت ان بزرگوں سے ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتی، اسی لیے شیخ کے علوم ان کو عطا نہیں ہوتے۔ عقیدت تو یہ ہے کہ بزرگوں کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے کو فنا کر دے اور ایسی فنا کے تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ اوّل اوّل بہ تکلف اپنی رائے کو شیخ کی رائے کے مقابلہ میں فنا کرے، یعنی ہیچ سمجھے، پھر چند روز بعد یہ تکلف حال بن جائے گا۔(۶) بدگمانی کی صورت میں احتیاط کاملہ کرنا جائز ہے : فرمایا کہ بلاوجہ کسی کی طرف سے بدگمانی کرنا ناجائز ہے، مگر بدگمانی کے ناجائز ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ دنیا بھر کو سچا ہی سمجھتا رہے، بلکہ اگر کسی کی کوئی بات دل قبول نہ کرے اور اس کے قول کے سچا ہونے میں کسی وجہ سے شبہ پیدا ہوجاوے تو وہاں پر گناہ سے بچنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس قائل کو یقینا جھوٹا نہ سمجھے، لیکن احتمال پیدا ہو جاوے جس سے معاملہ احتیاط کا کرے۔(۷) بدگمانی کا علاج اور احتیاط : فرمایا کہ تم کو جو لوگوں کے متعلق یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے اندر فلاں فلاں عیب ہے، اگر تم اس کا یقین نہیں کر لیتے، نہ اس بدگمانی کے مضمون کو زبان سے بیان کرتے ہو، نہ اس شخص کے ساتھ برتاؤ ایسا کرتے ہو جیسا کہ تم کو اپنے متعلق گمان ہوتا ہے، اگر ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ ہو تو پھر تم پر مواخذہ نہیں۔ (۸) تجربہ سے معلوم ہوا کہ شیخ کی بعض تدابیر اور تعلیم سے طالبین کی اصلاح نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے شیخ میں برکت کی ضرورت ہے اور اس برکت کا حصول تو محض منجانب اللہ تعالیٰ ہے، بندہ کے اختیار میں نہیں۔ (۹) شیخ کی رعایت وترجیح اعلیٰ درجہ کی حالت اور جامع بین الحب والعقل ہے اور یہ جامعیت سنت ہے صحابہؓ کی کہ اپنی محبت کو عقل سے مغلوب رکھتے تھے۔