انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے، کیوں کہ عام طبایع کے اعتبار سے عادت اکثر یہی ہے کہ بدونِ سختی کے اصلاح نہیں ہوتی۔ اسی لیے اس کی ضرورت سب عقلا کے نزدیک مسلم ہے اور ہر متمدن جماعت نے حسبِ ضرورت اپنے اپنے اصولِ سیاست مقرر کر رکھے ہیں، بلکہ نظامِ عالم ہی اصولِ سیاست پر قایم ہے۔ جب امنِ ظاہری کے لیے سیاست ضروری ہے تو امنِ باطنی کے لیے بدرجۂ اولیٰ ضروری ہوگی، کیوں کہ فسادِ ظاہری کی اصلاح اتنی دشوار نہیں جتنی فسادِ باطنی کی، پھر تعجب ہے کہ رذائلِ نفس کے ازالہ کے لیے سیاست کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔غصہ کی بات پر غصہ نہ آنا اور معافی چاہنے پر عفو نہ کرنا مذموم ہے : فرمایا کہ اگر کوئی ایسا بے حس ہو کہ اس کو غصہ کی بات پر بھی غصہ نہ آتا ہو تو اس کے متعلق امام شافعی ؒ کا فتویٰ سنیے: من استغضب فلم یغضب فہو حمارٌ، ومن استرضی فلم یرض فہو شیطان۔ یعنی جس کو غصہ دلایا جاوے (مراد یہ کہ اس کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جاوے جو فطرتِ سلیمہ کے اقتضا سے غصہ کا موجب ہو) اور پھر بھی اس کو غصہ نہ آئے تو وہ حمار ہے اور جس کو راضی کیا جاوے (یعنی اپنی کوتاہی کا تدارک کرکے اس سے معافی چاہی جائے) اور وہ پھر بھی راضی نہ ہوتو (چوں کہ یہ علامت ہے غایتِ تکبر کی اس لیے) وہ شیطان ہے۔شدت بہ مصلحتِ اصلاح محمود ہے : فرمایا کہ حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مختلف المزاج پیدا کیا ہے، پھر اس کے بعد بعض کو مقبول بنا دیا تو مقبولیت کے بعد مزاجِ فطری تو نہیں بدلتا اس لیے بعض مقبولین نرم ہوتے ہیں، بعض تیز ہوتے ہیں، لیکن نیت سب کی اصلاح ہی کی ہوتی ہے۔ آگے مزاج کے اختلاف سے رائے کا اختلاف ہوجاتا ہے، ایک کے نزدیک نرمی طریقہ ہے اصلاح کا، دوسرے کے نزدیک سختی طریقہ ہے اصلاح کا، کیوں کہ شدت علی الاطلاق مذموم نہیں، بلکہ جو شدت بلا ضرورت بلا مصلحت ہو وہ مذموم ہے (وہ تو بقول حضرتِ والا شدّت نہیں قساوت ہے) اور جو شدّت بضرورتِ سیاست اور بہ مصلحت اصلاح ہو وہ سراسر محمود ہے کیوں کہ وہ تو بقول حضرتِ والا شدت نہیں حدّت ہے جو اقتضائے ایمان ہے تشدّد نہیں تسدّدہے، درشتی نہیں درستی ہے جو عرصۂ دراز کے تجربوں کے بعد قایم کیے گئے ہیں۔اُصولِ صحیحہ اصل میں مسائلِ شرعیہ ہیں : فرمایا کہ اصولِ صحیحہ اصل میں مسائلِ شرعیہ ہیں جس میں بے شمار مصالح دِینیہ ودُنیویہ مُضمر ہیں اور اُصولِ صحیحہ کی پابندی کو سختی کہنا سراسر زیادتی ہے، کیوں کہ جو قانون اپنی ذات میں تو سہل ہو،