انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کثرتِ کلام ترک لا یعنی کی تعلیم : تہذیب: شریعت کی بہت بڑی تعلیم ہے کہ بے ضرورت باتوں میں نہ پڑنا چاہیے، حدیث: مِن حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ۔قول وفعل کے فضول یا مضر ہونے کی شناخت : تہذیب: ہر قول اور ہر فعل اختیاری کسی نہ کسی غایت کے لیے مطلوب ہوتاہے، پس ہر کام اور ہر بات میں یہ سوچنا چاہیے کہ اس کی غایت کیا ہے۔ جس کام اور جس بات کی کچھ غایت نہ ہو وہ فضول ہے اور غایت معلوم ہو مگر مفید نہ ہو وہ بھی فضول ہے اور اگر وہ غایت کوئی ضرر ہو لازم یا متعدی تو وہ کلام یا بات مضر ہے۔مناظرہ کی ممانعت کہ سراسر مضرِ قلب اور مضرِ دین ہے : تہذیب: آج کل مناظرہ بھی بہت مضر ہے، کیوں کہ اس کی بھی کچھ غایت محمودہ نہیں بس زیادہ مقصود یہ ہوتاہے کہ خصم کو ذلیل کیا جائے اور اپنی بات کو اونچا کیا جائے، تحقیقِ حق مقصود نہیں۔ چناں چہ امام ابوحنیفہ ؒ نے اپنے بیٹے حماد کو نصیحت کی کہ دیکھو! مناظرہ کبھی نہ کرنا ہم تو مناظرہ اس نیت سے کرتے تھے کہ شاید خصم کے منہ سے حق بات نکل جائے تو ہم اس کی بات مان لیں اور تم لوگ مناظرہ اس لیے کرتے ہو کہ خدا کرے خصم کے منہ سے حق بات نہ نکلے بلکہ جو بات نکلے باطل ہی نکلے تاکہ تم کو اس کے ردّ کا موقع ملے۔ بلکہ اب تو اس سے بھی بدتر حالت ہے کیوں کہ اس وقت جو تمنا ہوتی تھی کہ خصم کے منہ سے باطل ہی نکلے حق نہ نکلے اس کا منشا یہ تھاکہ وہ حضرات حق بات کو ردّ نہ کرنا چاہتے تھے، بلکہ حق بات کے رد سے شرماتے تھے اس لیے یہ تمنا تھی کہ خصم کے منہ سے حق نہ نکلے تاکہ رد کرسکیں۔ اور اب تو مناظرہ میں اوّل ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ خصم کی ہر بات کو ردّ کریں گے خواہ حق ہو یا باطل۔ترک لا یعنی میں دین اور دنیا دونوں کی راحت ہے : تہذیب: صاحبو! سوال وہ کرو جس کی ضرورت ہو۔ بات وہ کرو جس کی کچھ غایت ہو۔ کام وہ کرو جس کا کچھ مفید نتیجہ ہو اور جس کام کی غایت معلوم نہ ہو اس کو چھوڑو۔ جس بات کا کچھ نتیجہ نہ ہو اس کے درپے نہ ہو، اس میں دین کی راحت تو ہے ہی واللہ! دنیا کی بھی اسی میں راحت ہے۔زبان کی بے احتیاطی سے نورِ قلب زائل ہوجاتاہے : تہذیب: اعمال واحوال سے جو نور قلب میں پیدا ہوتاہے وہ اس زبان کی بے احتیاطی سے اکثر زائل ہوجاتاہے۔ بس اسباب کو جمع کرنے کے ساتھ موانع کو بھی رفع کرنا چاہیے تب ثمرہ مرتب ہوگا۔