انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے منافی نہیں ہوتیں، غرض اعتبار غالب حالت کا ہے، اگر سالک میں آثارِ مقام غالب ہیں تو وہ صاحبِ مقام ہے، گو احیاناً اس میں آثارِ حال کا بھی ظہور ہو اور اگر آثارِ حال غالب ہیں تو وہ صاحب حال ہے گو احیاناً اس میں آثارِ مقام بھی پائے جائیں، غرض کاملین پر بھی کبھی کبھی غلبۂ حال ہو جاتا ہے، لیکن وہ منافی کمال نہیں ہوتا، بلکہ حضرات انبیاء ؑ پر بھی کبھی کبھی ان حضرات کی شان کے موافق غلبہ طاری ہوا ہے۔ چناںچہ یومِ بدر میں حضور سرورِ عالم سردارِ انبیاءﷺ نے جس ابتہال کے ساتھ دعا فرمائی تھی، وہ بھی غلبۂ حال سے ناشی تھا، بلکہ گاہ گاہ فرشتوں سے بھی غلبہ منقول ہے، حالاں کہ ان میں انفعالِ بشری بھی نہیں ہوتا۔ چناںچہ حضرت جبریل ؑ کا فرعون کے منہ میں کیچڑ ٹھونسنا روایتِ ترمذی میں مذکور ہے، لیکن صاحبِ مقام پر جو غلبۂ حال ہوتا ہے اس میں وہ حدود سے خارج نہیں ہوتا، بخلاف صاحبِ حال کے کہ وہ کبھی حدود سے خارج ہو جاتا ہے مگر اس کو گناہ نہیں ہوگا، کیوں کہ بوجہ مغلوبیت وہ اس وقت مرفوع القلم ہوتا ہے۔قبضِ شدید معین حصول مقامِ عبدیت ہے : تحقیق: اصطلاحِ صوفیہ میں ابتلائِ شدید کو ہیبت سے تعبیر کرتے ہیں جو قبض کی اعلیٰ ترین قسم ہے، جس کا طریان کاملین ہی پر ہوتا ہے، ایسے شدید قبض میں ثابت قدم رہنے کے بعد سالک بعون اللہ تعالیٰ مقامِ عبدیت میں (جو اعلیٰ ترین مقامِ سلوک ہے) نہایت متمکّن اور راسخ القدم ہو جاتا ہے، کیوں کہ متصرّفِ حقیقی کے تصرّفاتِ عظیمہ کو خود اپنے اندر مشاہدہ کر لینے کے بعد اس کو اپنا ہیچ درہیچ لاشی محض ہونا روزِ روشن کی طرح مشاہد ہو جاتا ہے اور اس مشاہدہ عجز کی بدولت وہ بفضلہ تعالیٰ نزولِ کامل سے (جو ترقیاتِ باطنہ کی انتہائی منزل ہے) مشرّف وممتاز اور سربلند وسرفراز ہو جاتا ہے۔ نیز چوں کہ تغیراتِ احوالِ قلب کا اس کو خوب اچھی طرح اور ذاتی طور پر تجربہ ہوچکا ہوتا ہے، اس لیے عدمِ غلبہ ہیبت کی حالت میں بھی وہ عظمت وجلالِ خداوندی اور شوکت وہیبت، قضا وقدرِ الٰہی سے ہمیشہ ترساں ولرزاں ہی رہتا ہے اور اچھی سے اچھی باطنی حالت کو بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہوئے اس کو کبھی عجب وناز کا واہمہ بھی نہیں ہوتا، کیوں کہ بر بنائِ تجربہ سابق وہ اس حالت کو حدوثاً محض موہبت خدا اور بقاء ً ہر وقت زیر تصرّف رب العلا یقین کیے ہوتا ہے، غرض استحضار عظمتِ حق اس کا حالِ دائمی اور غایتِ ادب واحترام حضرت ذو الجلال والاکرام اس کا اقتضائے طبعی اور تفویضِ کامل وفنائِ تام اس کا شعارِ زندگی ہو جاتا ہے یا بطور حاصل یوں کہیے کہ عبدیت محضہ اس کی صفتِ لازمہ اور بندگی وسرافگندگی اس کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔چند واقعاتِ عبدیت حضرتِ والا ۱۔ بار بار قسم کھا کھا کر فرمایا کہ میں اپنے کو کسی مسلمان سے حتی کہ ان مسلمانوں سے بھی جن کو لوگ فسّاق وفجّار سمجھتے ہیں فی الحال اور کفار سے بھی احتمالاً فی المآل افضل نہیں سمجھتا اور آخرت میں درجات حاصل ہونے کا کبھی مجھے