انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طبیعت وطریقہ سے لوگ واقف ہیں، جانتے ہیں کہ چھوٹا بڑا جو کام بھی اپنے ذمہ قبول فرما لیتے ہیں اس کا پورا اہتمام وحق بھی ادا فرماتے ہیں، جس کا اثر لازماً ارشاد وافادہ کی ان خدمات پر پڑتا تھا جو حاضر ہونے والوںکا اصل مقصود ہوتا ہے۔حضرت والا کی ہر بات میں حکمت : حضرت والا اکثر خصوصاً جب ایک سے زائد وقت کا مہمان ہو تو تکلف ہم طعامی کا نہیں فرماتے۔ تکلف پسند مہمانوں کو یہ بات گراں ہوسکتی ہے۔ ایک مرتبہ خود ہی فرمایا کہ میزبان کے ساتھ مہمان بے تکلف ہوکر نہیں کھاتا۔ اندازاہ کرنا چاہیے کہ جب ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایسی دقیق رعایتیں فرماتے تھے تو مہماتِ اُمور میں کیا کیا حکمتیں نہ پیش نظر رہتی ہوں گی۔رسمی تکلّفات : جو لوگ ہر جگہ رسمی تکلّفات یا مصنوعی خوش اخلاقیوں کی تلاش میں رہتے ہیں، ان کو تو یقینا حضرت کے ہاں بعض اُمور اجنبی معلوم ہوں گے، جن کو وہ نافہمی یا غلط فہمی سے خدا جانے کس کس چیز پر محمول کریں گے، لیکن جو شخص کسی اور طبیعت کی تلاش میں حاضر ہوتا ہے، وہ تو (بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ) حضرت کی ساری معاشرت کو حکمت ومصلحت پر مبنی پائے گا اور نام نہاد تشدّد کے بجائے ہر امر میں انتہائی راحت وسہولت محسوس کرے گا۔مکالمہ وقف کمیٹی متعلق تجویز قانونِ نگرانی اوقاف : حضرت والا نے اس کمیٹی سے صاف فرما دیا کہ چوں کہ وقف مذہبی فعل ہے، اس لیے اس کے اندر غیر مسلم کا دخل دینا خود مذہبی دخل اندازی ہے اور مذہبی دست اندازی کی درخواست کرنا اور کسی طرح سے اس کی مداخلت کی کوشش کرنا صاف جرم ہوگا، جیسے کہ نماز ایک خالص مذہبی فعل ہے اس کے اندر کسی طرح جائز نہیں کہ غیر مسلم کو دخیل بنایا جائے، اسی طرح یہ بھی جائز نہ ہوگا کہ وقف میں کسی غیر مسلم سے دست اندازی کی درخواست کی جاوے یا کوئی ایسی کوشش کی جاوے کہ وہ غیر مسلم وقف کے انتظامی معاملات میں دخیل ہو۔ اس کے جواب میں ایک مشہور بیرسٹر صاحب نے جو وفد کی طرف سے گفتگو کے لیے تجویز ہوئے تھے اور جو جرح کے اندر اس قدر لائق شمار ہوتے ہیں کہ لوگ ان کو جرح کا بادشاہ کہتے ہیں، انھوں نے کہا: معاف فرمائیے نماز میں اور وقف میں فرق ہے، اس لیے کہ نماز کا تعلق مال سے نہیں ہے اور وقف کا تعلق مال سے ہے اور اس وقت چوں کہ متولیوں کی حالت خراب ہورہی ہے، اس لیے اوقاف کے اندر وہ بڑی گڑبڑی کرتے ہیں۔ اس کی آمدنی مصارفِ خیر میں صرف نہیں کرتے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ اچھا اگر آپ کے نزدیک نماز کی نظیر ٹھیک نہیں تو زکوٰۃ ہی کو لے لیجیے، یہ ایک خالص مذہبی فعل ہے اور اس کا تعلق مال سے بھی ہے اور بہت سے مسلمان ایسے بھی ہیں جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے، مگر چوں کہ مذہبی فعل ہے، اس لیے اس میں غیر مسلم کی مداخلت جس قسم کی بھی ہو، ناجائز ہے۔ بیرسٹر صاحب