انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ورم بھی آگیا۔ہر نعمت کی قدر کرنا چاہیے : فرمایا کہ میں خود مال کو خدا کی نعمت سمجھ کر اس ہاتھ میں جوتا نہیں لیتا جس میں روپیہ ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ نعمت کی تحقیر کا کسی کو کیا حق ہے، نعمت وہ چیز ہے کہ ہمارے یہ سارے لمبے چوڑے دعویٰ کمالات کے اور سارا طنطنہ جبھی تک ہے جب تک کہ انھوں نے اپنی نعمت سے نواز رکھا ہے، ورنہ ایمان کا سنبھلنا بھی مشکل تھا۔گھر علیحدہ بنا لینا مناسب ہے : فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب ؒ نے خود مجھ سے فرمایا تھا کہ گھر علیحدہ بنا لینا مناسب ہے، اس کی ضرورت ہے کہ اپنا کوئی جدا ٹھکانہ ہو۔دوزخ مومن کے لیے موجب تطہیرِ ہوگی : تطہیرِ مومن کا طرز مختلف ہوگا کفّار سے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ساتھ ایسے رحیم وکریم ہیں کہ اگر کوئی مومن دوزخ میں بھی جاوے گا، تو وہ دوزخ بھی دوسرے نوع کی ہوگی، یعنی کفّار کے لیے تو وہ جیل خانہ ہے اور مسلمان کے لیے حمّام ہے اور بعض مومنین کا نورِ ایمان تو اتنا قوی ہوگا کہ پُلِ صراط پر ان کے گذرنے کے وقت آگ کہے گی: أسرع یا مؤمن! فإنّ نورک أطفأ ناري، اے مومن جلدی گذر جا کیوں کہ تیرے نورِ ایمان کی وجہ سے میں ٹھنڈی ہوئی جاتی ہوں، اگر تُو ذرا ٹھہر گیا تو میں پٹ ہو جاؤں گی۔ اور بعض ضعیف الایمان جو دوزخ میں جاویں گے بھی تو ان کا جانا تزکیہ وتطہیر کے لیے ہوگا، یعنی کفار تو دوزخ میں تعذیب کے لیے بھیجے جاویں گے اور مسلمان تہذیب کے لیے۔ جب یہ ہے تو تم میلے کُچیلے ہو کر کیوں جاتے ہو، پاک صاف ہو کر جاؤ۔ پھر حمّام کی صورت بھی دیکھنے میں نہ آئے گی۔ نیز ایک تفاوت دوزخ میں مومن اور کافر کا کشفی ہے، یہ کشف شیخ اکبر ؒ کا ہے کہ مومن دوزخ میں سوئیں گے بھی اور خواب بھی دیکھیں گے کہ جنت ہے، حوریں، قصور ہیں اور یہ کرنا ایسا ہوگا کہ جیسے کلورا فارم سنگھاکر آپریش کیا جاتا ہے۔ اس لیے دوزخ میں مومن کو موت کی سی حالت دے دی جائے گی، البتہ جنت میں نیند نہ ہوگی، کیوں کہ یہ نیند مشابہ موت کے ہے اور جنت میں موت ہے نہیں۔ بہر حال دوزخ مومن کے لیے مطّہر ہے، گو بعض اوقات تطہرّ مولم بھی ہوتی ہے۔ دیکھیے بعض میل تو ایسا ہوتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے دُور ہو جاتا ہے اور بعض گرم پانی سے اور بعض بدون صابن لگائے دور نہیں ہوتا اور بعض بدون بھٹی پر چڑھائے نہیں جاسکتا۔ ٹھنڈے پانی سے مراد توبہ ہے، گرم پانی سے مراد بیماری وحوادث ہیں، صابن سے مراد موت ہے، بھٹی سے مراد دوزخ ہے۔ بس مومن کا دوزخ میں جانا میل کُچیل، داغ دھبّہ سے پاک صاف ہونا ہے۔ یہاں کی آگ میں بھی تطہیر کی خاصیت رکھی گئی ہے۔ دیکھیے جیسے گوبر ناپاک ہے، مگر جل کر راکھ ہو کر پاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم بھی خدا کی محبت اور عشق میں جل کر فنا ہو جاؤ، مٹ جاو، سوختہ افروختہ ہو جاؤ۔ پس پاک صاف ہوکر پہنچو۔ اسی کو فرماتے ہیں ؎