انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تقاضا پیدا ہوتا ہے، جس سے اس کی وہ طاعات پھولوں سی معلوم ہوتی ہے بلکہ بدونِ طاعات کے ارتکاب کے چین ہی نہیں ملتا۔نقصِ عمل اور ہے اور اختصارِ عمل اور ہے : ارشاد: شریعت نے گو نقصِ اعمال کی اجازت نہیں دی مگر اختصارِ اعمال کی اجازت دی ہے، نقصِ اعمال تو یہ ہے کہ ارکان کو خراب کرکے ادا کیا جاوے، خشوع کو فوت کیا جاوے اور اختصاریہ ہے کہ ارکان میں زیادہ دیر نہ لگائی جاوے، لمبی سورتوں کی جگہ چھوٹی سورتیں پرھ لے، سات دفعہ سبحان ربي العظیم کی جگہ تین دفعہ کہہ لے اور نوافل کو ترک کرکے محض فرائض و سنن مؤکّدہ پر اکتفا کرے۔قلندر وفرقہ ملامتیہ کی تعریف : ارشاد: اصطلاحِ صوفیہ میں وہ جماعت قلندر کہلاتی ہے جن میں اعمالِ قالبیہ یعنی اعمالِ ظاہرہ تو کم ہوتے ہیں مگر اعمالِ قلبیہ ان کے بہت زیادہ ہیں اور اعمال قلبیہ یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ درست رکھا جاوے، قلب کی نگہداشت رکھی جاوے کہ غیر حق کی طرف متوجہ نہ ہونے پاوے، بلکہ اکثر اوقات قلب کو ذکر میں مشغول رکھا جاوے، نیز قلب میںکسی مسلمان کی طرف سے غل وحقد نہ ہو، سب کے ساتھ خیر خواہی ہو، نیز حقوق وقت پر ادا کیے جاویں کہ کوئی وقت ذکر سے خالی نہ جاوے، نیز خوشی وغمی کے حقوق ادا کیے جاویں، نعمت پر شکر ادا ہوتا رہے، حزن وغم میں دل خدا تعالیٰ سے راضی رہے، اس کے سوا اور بہت اعمالِ قلبیہ ہیں اور اصطلاحِ صوفیہ میں فرقۂ ملامتیہ وہ ہے جو اعمال کے اخفا کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہماری غفلت کا راز اور اس کے ازالہ کا طریقہ: ارشاد: ہماری غفلت کا راز یہ ے کہ ہم کو اعمال کے نافع ومضر ہونے کا استحضار نہیں، بس اس کا علاج یہ ہے کہ اعمال کے نافع وضار ہونے کا اعتقاد دل میں بٹھا لیا جاوے اور استحضار کا ماخذ حدیث أکثر واذکر ھاذم اللذات ہے اور خاص عمل کے وقت اس کے استحضار کی تدبیر یہ ہے کہ صلوٰۃ مودع، یعنی ہر عمل کو یہ سمجھ کر ادا کرو کہ شاید یہ ہمارا آخری عمل ہو۔تقدیر کی غایاتِ آجلہ وعاجلہ کا بیان : ارشاد: تقدیر تجویزِ حق کا نام ہے جس کا تعلق ذات وصفاتِ حق سے ہے، اس لیے اس میں کاوش کرنے سے بہ جز حیرت وپریشانی کے کچھ حاصل نہ ہوگا اور درجہ اجمالی میں چوں کہ اس کا بیان ضروری تھا اس وجہ سے اجمالاً بیان فرما دیا ہے اور اسی ضرورت کی بنا پر اسی مسئلہ کی ایک غایت بھی بتلا دی جس کی ضرورت عاجلہ تھی، یعنی اعتقادِ تقدیر کی ایک غایت تو آجلہ ہے یعنی اجرِ آخرت، کیوں کہ تقدیر کا اعتقاد موجبِ نجات ہے (یہ خاصیت عقائدِ حقہ میں ہے کہ بدونِ عمل کے وہ خود بھی موجبِ نجات ہیں گو نجاتِ اولیٰ نہ ہو) سو شارع نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ ایک غایتِ عاجلہ بھی بتلا دی۔ چناں چہ ارشاد ہے: {مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ