انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
التفات نہ کیا جاوے، اپنے کام میں لگا جاوے اور کام ہی کی طرف ہمہ تن متوجہ رہا جاوے، ورنہ غیر مقاصد میں مشغول ہو کر طالب اپنے اصل کام سے بھی رہ جاتا ہے اور پھر کیفیات بھی منقطع ہو جاتی ہے، کیوں کہ ان کا ورود بھی تو کام ہی کی برکت سے ہوتا ہے جیسے چراغ میں روشنی اسی وقت تک رہتی ہے جب تک بتی میں تیل پہنچتا رہتا ہے، اگر تیل ہی ڈالنا چھوڑ دیا جاوے رفتہ رفتہ روشنی کم ہو کر چراغ گُل ہو جاوے گا۔صاحبِ احوال وغیر صاحبِ احوال کی مثال : ایک بار فرمایا کہ کشف اور احوال ومواجید وغیرہ راہِ سلوک میں کوئی چیز نہیں، بلکہ یہ چیزیں اکثر موانع طریق ہو جاتی ہیں، ان کا نہ ہونا زیادہ اچھا اور بے خطر ہے، اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص تو سواری گاڑی میں سفر کر رہا ہے جو ہر اسٹیشن پر ٹھہرتی ہوئی دلّی پہنچتی ہے اور جس کی کھڑکیاں بھی کھلی ہوئی ہیں وہ شخص خوب سیر کرتا ہوا راستہ کے مناظر دیکھتا ہوا ٹونڈلہ اٹا وہ غیرہ بیچ کے اسٹیشنوں پر ٹھہرتا اور اُترتا ہوا دلّی پہنچا اور دوسرا اسپیشل ٹرین میں سوار کھڑکیاں بند کانپور سے جو چلا تو دھڑ دھڑ سیدھا دلّی میں آکر اُترا۔ سواری گاڑی والے کے لیے یہ بھی خطرہ ہے کہ وہ کسی بیچ والے اسٹیشن کے نقش ونگار دیکھ کر وہیں اُتر نہ پڑے اور عمر بھر دلّی پہنچنا ہی نصیب نہ ہو۔ بس بلا کشف وکیفیات وغیرہ کے جوسلوک ہوتا ہے وہ زیادہ اسلم ہے۔ کشف وغیرہ بعض صورتوں میں خطرناک ہوتا ہے۔ چناں چہ ہمارے حضرت حاجی صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ حجابِ نورانی حجابِ ظلمانی سے اشد ہوتا ہے۔ کیوں کہ حجاب ظلمانی میں تو سالک کو اس وجہ سے کوئی دھوکا نہیں ہوتا کہ اس کا مخلِ مقصود ہونا بالکل ظاہر ہے، بخلاف حجاب نورانی کے کہ اس کی نورانیت سے دھوکہ کھا کر سالک اسی کو مقصود سمجھنے لگتا ہے۔اصل طریق عمل ضبط ہے : حضرت والا کا ارشاد ہے کہ کیفیات کے طریان کے وقت اصل طریقِ عمل تو یہی ہے کہ ضبط کرے، لیکن اگر غلبہ ہو اور ضبط کرنے میں تکلف ہو تو پھر یہی مناسب ہے کہ اس کیفیت کا اتباع کرے تاکہ غلبہ فرو ہو اور جب غلبہ فرو ہو جاوے اور کیفیات حدِّ ضبط کے اندر آجائیں تو پھر ضبط کرے اور یہ جو بزرگوں کا ارشاد ہے کہ وارد کو مہمانِ عزیز سمجھے، اس کا حق ادا کرے، ورنہ وہ ادنیٰ بے التفاتی سے رخصت ہو جائے گا، تو وارد کو مہمان جبھی کہیں گے جب اس وارد کا غلبہ ہو۔ غلبہ سے پہلے پہلے نہ وہ مہمان ہے، نہ اس کا کوئی حق قائم ہوتا ہے۔ قبل غلبہ کے اگر اس کا حق ادا کیا جاوے تو یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کوئی راہ چلتے مسافر کو زبردستی اپنا مہمان بنائے اور خواہ مخواہ اس کے سر ہو جاوے کہ تو تو میرا مہمان ہے آ میں تیرا حق ادا کروں۔امتیازی شان اور کثرتِ ضحک وتکلم سے تحرّز کی ترغیب : فرمایا کہ تقویٰ اور دینداری کا اہتمام تو بہت رکھے، لیکن اپنی طرف سے حتی الامکان کوئی ایسی امتیازی صورت نہ پیدا ہونے دے جس سے شہرت ہو جاوے، جب لوگوں سے ملنے