انفاس عیسی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے کُھرپے، پھاوڑے، گنڈا سے پھالی کیسے بن سکتے ہیں یا اگر سُنار چاندی کے ساتھ رعایت کرے، اور جنتری میں دے کر نہ کھینچے اور کٹھالی میں رکھ کر نہ دھونکے تو کیسے زیور بن سکتا ہے۔وقف جگہ میں زیادہ زمین گھیرنا جائز نہیں : فرمایا کہ ایک شخص پختہ قبر بنانا چاہتا تھا، میں نے سوال کیا کہ زمین ملک کس کی ہے؟ کہا کہ وقف ہے، میں نے کہا کہ وقف جگہ میں زیادہ زمین گھیرنا جائز نہیں، اگر کسی ایک شخص کی ملک ہوتی تو جگہ اس کی اجازت سے گھیر سکتے ہیں، لیکن پختہ قبر بنانا پھر بھی ایک فعل زائد ہوتا ہے۔زندہ دلی اور مردہ دلی کی شناخت : فرمایا کہ مسلمانوں کے شرکت سے ہر کام میں رونق ہو جاتی ہے، اس لیے کہ یہ زندہ دل ہیں اور ان کے زندہ دل ہونے کی ایک یہی پہچان ہے کہ اگر ان پر حوادث بھی آتے ہیں تب بھی ایمانی قوت کی وجہ سے ان کی زندہ دلی نہیں جاتی اور باقی جتنی اور قومیں ہیں وہ یوجہ محبتِ دنیا کے مردہ دل ہیں، ان کے مردہ دلی کی ایک یہی پہچان ہے کہ حوادث کے وقت بدحواس ہو جاتے ہیں، گھبرا جاتے ہیں۔دینِ حق پر چلنا گراں گذرتا ہے : فرمایا کہ جس طرف عوام الناس ایک دم چل پڑیں، سمجھ لو کہ دال میں کالا ہے، کیوں کہ خالص حق اور دین پر چلنا نفس پر گراں ہوتا ہے، اس لیے عام طور پر لوگ اس سے گھبراتے ہیں۔ہماری نالایقی سے سلطنت پر کفار حکمراں ہیں : فرمایا کہ یہ سمجھنا ہی غلط ہے کہ کفار ہم پر سلطنت کر رہے ہیں اور ان میں کوئی لیاقت ہے نہیں، بلکہ ہمارے اندر نالایقی ہے اس وجہ سے مسلط کر دیے گئے ہیں، اگر وہ نالایقی دُور ہو جاوے تو پھر وہی معاملہ ہے۔اتفاق کا مدار اعمالِ صالحہ پر ہے : فرمایا کہ اتفاق کا تعلق تدابیر سے ہے ہی نہیں، اسی لیے میں نے اس اتفاق کا بیان آج تک وعظوں میں مستقلاً بیان نہیں کیا، اس لیے کہ بیکار ہے۔ جو چیز اصل ہے اتفاق کی وہ اعمال صالحہ ہیں، اگر مسلمان ان کو اختیار کریں، خود بخود اتفاق ہوجاوے گا۔ دیکھیے حضورﷺ جیسے مدبّر اور اتنا بڑا سامان تدبیر کا کہ تمام ما في الأرض کا اتفاق، مگر ان سب تدبیروں کا نتیجہ اور حاصل دیکھیے کیا ارشاد ہے: {ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ لاO وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْط لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَٰلکِنَّ اﷲَ اَلَّفَ بَیْنَہُمْط} [الأنفال: ۶۲]۔زندگی میں بے لطفی اور بے مزگی کا سبب : فرمایا کہ بڑے لطف کی بات ہے کہ چھوٹے یہ سمجھیں کہ ہم چھوٹے ہیں اور بڑے یہ سمجھیں کہ یہ چھوٹے نہیں، اگر سب ایسا کریں تو بہت ہی راحت ہے، اب جو بے لطفی اور بے مزگی ہے، اس کا سبب یہی ہے کہ چھوٹے تو اپنے کو چھوٹا نہیں سمجھتے اور بڑے ان کو چھوٹا سمجھتے ہیں پھر لطف کہاں، بے لطفی ہی ہوگی۔سوئیاں پکانا، کھانا عید کے روز بدعت نہیں : فرمایا: ایک بار مجھ کو عید کے روز شیر پکانے کے متعلق بدعت کا شبہ ہوا،